رواں سال 26 ستمبر کو سندھ کے مرکزی شہر کراچی سے طالب علم گلشاد بلوچ جبری لاپتہ ہوئے تھے۔
کراچی لیاری کے رہائشی گلشاد بلوچ ولد دلوش کے لواحقین اور جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز نے میڈیا میں انکی جبری گمشدگی سے متعلق بیان میں کہا تھا کہ وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ ملیر سے کراچی آرہے تھے کہ سی ٹی ڈی نے زبردستی راستہ روک کر انکو ساتھ اٹھاکر لے گئے ۔
گلشاد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ سوشل میڈیا ایکٹویٹس نے بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر کمپئین کرتے ہوئے انکی بازیابی کا مطالبہ کیا تھا۔
تاہم آج ایک مہینے بعد سی ٹی ڈی نے انکی گرفتاری سندھ کے شہر میر پور خاص سے ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ گلشاد ولد دلوش جس کا تعلق بی ایل اے سے ہے انکو بھاری اسلحہ کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہے۔
ایس ایچ او سی ٹی ڈی نے کہا کہ ملزم کے خلاف ایف آئی آر درج کیا گیا ہے اور انکا ایک ساتھی فرار ہوچکا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ملزم میر پور خاص میں ایک کاروائی کا منصوبہ بندی کررہا تھا کہ انہیں گرفتار کیا گیا۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی کاروائیوں کو قوم پرست جماعتیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں پہلے سے مشکوک قرار دیتے ہیں۔ قوم پرست حلقوں کے مطابق سی ٹی ڈی بھی پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کی طرح لوگوں کو ماورائے عدالت گرفتاریوں سمیت قتل میں بھی ملوث ہیں۔
سی ٹی ڈی اس سے قبل بلوچستان میں جبری گمشدگی کے شکار افراد کو جعلی مقابلوں میں کرتا آرہا ہے۔ گذشتہ دنوں کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کی ایک کاروائی جعلی قرار پائی ہے۔ جہاں پہلے سے چار لاپتہ افراد کو نوشکی میں جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا۔
حالیہ کچھ مہینوں میں سی ٹی ڈی نے کئی لاپتہ افراد کو منظر عام پر لاکر انکی گرفتاری ظاہر کرکے ان پر الزامات لگائے ہیں ۔