چلو بکھرے بلوچستان کو بنائیں
تحریر: آئی-کے بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
“غلامی کی زنجیروں میں قید لوگ، چلتے ضرور ہیں پر پہنچتے کہیں نہیں۔”
تحریر میں ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں ایک مثبت پہلو اور دوسرا منفی پہلو . مثبت پہلو یہ ہے تحریر میں ہم وہ باتیں؛وہ چیزیں کہہ دیتے ہیں جو در حقیقت کہہ نہیں پاتے۔ اور تحریر میں منفی پہلو یہ ہے کہ تحریر میں ہم جو احساسات، جذبات، درد،تکلیف اور لہجے اپناتے ہیں وہ پڑھنے والوں تک نامکمل ہو کر پہنچتے ہیں۔
میری شدید خواہش ہے جو جذبات، احساسات درد، اس تحریر میں ہیں وہ مکمل ہوکر پڑھنے والوں تک پہنچے، کیونکہ ہم اک ایسے خطے کے باشندے ہیں جہاں ساحل وسائل اور مسائل موجود ہیں ساحل و وسائل تو قدرتی ہیں لیکن جو مسائل ہیں وہ قدرتی نہیں ریاستی ہیں۔
ریاست(یہاں ریاست مراد پاکستان) نے ہمیشہ سے بلوچستان کے ساحل وسائل کو لُوٹنے کیلئے بلوچستان کو”ب،ل، و،چ، س، ت، ا،ن” بنایا ہے۔ اور اُس میں رہنے والے بلوچوں کا بے دردی، بے رحمی سے قتل عام کیا ہے اپنے جدید ہتھیاروں کو بلوچستان اور بلوچ عوام کے اوپر تجربے کیلئے استعمال کرتاہے اور اپنے بچوں کو اچھے ڈاکٹرز بنانے کیلئے بلوچوں کی لاشوں کو تجربے کیلئے ہسپتالوں میں پھینک دیتاہے۔کیونکہ ریاست پاکستان کیلئے بلوچ ہونا ناقابل معافی جُرم ہے۔جب ہی تو آئے دن بلوچ مائیں،بہنیں اپنے لاپتہ،بیٹے، بھائی، شوہر کے انتظار میں روڈوں پہ چیخ چیخ کر، سِسک سِسک کر اس دنیا سے رخصت ہوتی ہیں اور باپ اسی انتظار میں بسترِ مرگ پہ پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں تک کے ریاستِ پاکستان کے ظلم و جبر سے بلوچوں کی زندگی اُس مقام پہ پہنچی ہے جہاں وہ ذہنی اُلجھنوں اور پیچیدگیوں سے دوچار ہوتے جارہے ہیں کہ کب نجانے کس کی باری لاپتہ افراد یا جعلی مقابلہ میں قتل میں آجائے۔
اور تو اور جب بلوچ خواتین نے اپنے بکھرے”ب,ل,و,چ,س,ت,ا,ن” کو بلوچستان بنانے کیلئے تعلیمی میدان میں قدم جمائے، تو ریاست بلوچستان میں تعلیمی معیار گرانے اور درسگاہوں میں جنسی ہراساں کرنے جیسے حربے استعمال کرنے لگی، اور عوام میں اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے ریاست نے تعلیمی معیار بہتر بنانے کے بجائے اپنی پسند کے مطابق تعلیمی ڈھانچے تبدیل کئیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں پاکستان کی پالیسیاں بلوچستان اور بلوچستان والوں کیلئے ہمیشہ سے ایسے ہیں جیسے ایک انسان کا رویہ ایک حیوان کیلئے ہوتا ہے۔
لیکن جب سے ریاست پاکستان کو ان باشعور، بہادر بلوچ مرد اور عورت(جو اپنا آپ میں وطن کا شاعر، استاد، شاگرد ، ادیب و دانشور اور گلوکار ہیں۔ جو اپنے خون کو سیاہی بنا کر وطن کیلئے شاعری لکھتے ہیں۔
جو مکران ، جھالاوان، ساروان، رخشان اور کوہ سلیمان کے رنگ، مذہب، فرقہ اور زبان سے بالاتر ہوکر بغیر کسی تفریق/تعصب ایک دوسرے سے آوارگی ،شرارتیں، ہنسی مذاق کرتے ہیں۔
جو سلیمانی چائے (کھوہ چائے)کی آخری گھونٹ تک فلسفہ،شعور و آگہی ،علم و عمل، سیاست، وطن غمخوار و وطن غدار کے ہر نقطہ نظر پہ پرچار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو، تاج محمد تاجل،عطاء شاد،میر گل خان نصیر،اللہ بخش بزدار،صباء دشتیاری، مبارک قاضی، ڈاکٹر منظور،جیسے سیکڑوں ہستیوں سے آشنا کرتے ہیں۔
جو مشرقی، مغربی، شمالی، جنوبی بلوچستان کے حدود کے پابند نہیں جس بھی جگہ بیٹھ جاتے اس کو اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔
جو سوتے وقت بانک کریمہ اور شاری بلوچ کی بہادری و قربانی کو چادر، مُرید کی شاعری کو تکیہ اور بلوچی علم و فلسفہ کو پہلو میں رکھ کر سوجاتے ہیں اور روشن، پُرامن اور اک مکمل/یکجا بلوچستان کے خواب کو پُورا کرنے کیلئے سورج کا غرور توڑ کر اس سے پہلے اُٹھ جاتے ہیں) سے پالا پڑا ہے تب سے ریاست پاکستان نے بلوچستان کے لوگوں کی قومی جذبات کا غلط فائدہ اٹھا کر انکو ایک دوسرے کا خونخوار بنادیاہے۔ ہر دوسرے شہر، گاؤں میں اپنی پسند کے دو نمبر سیاسی پنڈت بنائے جنہیں عام زبان میں نواب، سردار، وڈیرہ کہتے ہیں(ریاست کے سامنے ان کی اتنی حثییت ہے جتنی شطرنج کی بساط پہ پیادوں کی۔)
کتنی عجیب بات ہے جن سیاسی پنڈتوں کی کوئی حثییت نہیں وہی سیاسی پنڈت بلوچستان میں اپنے اپنے آقاؤں کی خوشنودی کیلئے اپنے ہی بلوچ ماؤں اور بہنوں کی تزلیل کرتے ہیں اپنے نوجوانوں کو دن دھاڑے لاپتہ یا قتل کرواتے ہیں۔ اور اپنی مردہ سیاسی سوچ و پارٹی کی وجود کو برقرار رکھنے کیلئے اپنے اپنے سیاسی طلباء تنظیم بنائے جو طلبہ،طالبات کو اک طرزِ عمل کے سیاست سے آشنا کرتے ہوئے انکی سوچ کو آلودگیوں،فسادات سے بھردیا ہے، وہی طلباء تنظیمیں حقیقی سیاست اور حق رائے سے محروم ہیں جو فقط اچھی اچھی تقریروں تک محدود ہوچکے ہیں۔
یہ تحریر کسی شخص، کسی ذات،بشمول طلباء تنطیموں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہی، بلکہ ان تمام باشعور پڑھے لکھے بلوچوں سے التجاء کرتی ہے کہ ریاست پاکستان اور اس کے سیاسی پنڈتوں کے الہ کار نہ بنیں اور نہ ہی انکے مہرے۔ بلکہ گودی سمی دین،سیما،ماہ رنگ جیسی ہزاروں ماؤں،بہنوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں، اگر کھڑے نہیں ہوسکتے تو رکاوٹ بھی نہ بنیں۔
یہ تحریر بس یہی التجاء کرتی ہے کہ چلو اپنی باشعور سوچ ، علم و فلسفہ اور قلم سے بکھرے”ب, ل، و، چ، س، ت,ا، ن” کو اک ایسا بلوچستان بنائیں، جہاں مذہب ،فرقہ،زبان اور علاقہ کے بنیاد پہ تعصُب، نفرت اور تفریق نہ ہو۔ جہاں ہر فرد وطن پہ قربان ہونے کیلئے تیار ہو۔
چلو بکھرے”ب,ل، و، چ، س، ت، ا، ن” کو اک ایسا بلوچستان بنائیں، جہاں مرد اور عورت ہر محاذ پہ اک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔
چلو بکھرے”ب,ل، و، چ، س، ت، ا، ن” کو اک ایسا بلوچستان بنائیں جہاں دو نمبر سیاسی پنڈوں ، نواب،سردار،وڈیروں کا وجود نہ ہو۔
چلو بکھرے”ب،ل،و،چ،س،تا،ن” کو اک ایسا بلوچستان بنائیں،جہاں فقظ محبت، آزادی، برابری، انسانی و سماجی انصاف پہ مبنی اک مکمل بلوچستان ہو۔
چلو بکھرے”ب,ل، و، چ، س، ت، ا، ن” کو بلوچستان بنائیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں