پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بلوچ طلبا الزام عائد کررہے ہیں کہ وہاں زیر تعلیم بلوچ طالب علموں کو ان کے روایتی لباس کے بنا پر ہراساں کیا جارہا ہے۔
بلوچ کونسل پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ پنجاب و وفاق کے اندر بلوچ طلبا کو مسلسل ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کا سامنا ہے۔ جس کے سبب طلبا میں ایک شدید ذہنی کرب و تناؤ کا ماحول پایا جاتا ہے.
انہوں نے کہا کہ 22 اکتوبر کی رات بلوچ کونسل پنجاب یونیورسٹی کے چیئرمین احسان بلوچ اور اُن کے ہمراہ اقبال شاہ کو صرف اس وجہ سے پولیس نے گرفتار کیا کہ اُنہوں نے بلوچی روایتی لباس پہنا ہوا تھا اور بقولِ پولیس کہ یہ لباس وحشیوں والا ہے۔
“رات گئے تک احسان بلوچ اور اقبال شاہ کو مسلسل ہراساں کرنے اور ڈرانے دھمکانے کے بعد ایک شدید ذہنی کوفت کے عالم میں رہا کیا گیا۔”
ترجمان کے مطابق پنجاب و وفاق میں ہزاروں بلوچ طلبا زیرِ تعلیم ہیں اور انہیں ہر روز کبھی انکے لباس تو کبھی اُنکی پہچان پر تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بلوچ طلبا کی پروفائلنگ و ہراسمنٹ اب ایک روز مرہ کا معمول بن چکا ہے جس کے سبب طلبا ایک خوف میں مبتلا ہیں، جس کے سبب نہ صرف اُن کا تعلیمی سلسلہ بلکہ اُن کی ذاتی زندگی بھی حددرجہ متاثر ہے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ ہماری تمام انسانی حقوق کے اداروں اور سماجی کارکناں سے درخواست ہے کہ پنجاب میں بلوچ طلبا کی ہراسمنٹ اور پروفائلنگ کے خلاف آواز اٹھائیں تاکہ بلوچ طلبا اس خوف و ہراس کے ماحول سے نکل کر اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔