بلوچستان میں پاکستانی فورسز جبری لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں زیرحراست قتل کر رہی ہے۔ جبکہ بین الاقوامی برادری اسےروکنے کی بجائے مالی مدد کر رہی ہے یا بلوچستان کے استحصال میں سرمایہ کاری کے نام پر براہ راست شراکت دار بنی ہوئی ہے –
ان خیالات کا اظہار بلوچ نیشنل موومنٹ کے سیکریٹری جنرل دلمراد بلوچ نے پے درپے مستونگ اور خاران میں جعلی مقابلوں میں ‘دسجبری لاپتہ افراد‘ کے حراستی قتل کے ردعمل میں کہی۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کی ہدایت پر محکمہ پولیس میں نام نہاد کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی ) بنایا گیا ہے جو کہشہریوں کی جبری گمشدگی میں ملوث ‘پاکستانی فوج‘ کے خونی قدموں کے نشان مٹانے پر معمور ہے۔رواں سال بلوچستان، پشتونخوااور سندھ میں لاتعداد جعلی مقابلوں میں درجنوں زیرحراست جبری لاپتہ افراد کو قتل کرکے ان کے ‘ دہشت گرد ‘ ہونے کی جھوٹیکہانیاں گڑھی گئیں۔
سیکریٹری جنرل نے کہا کہ نشتر ہسپتال ملتان میں کم ازکم 238 لاوارث لاشوں کی دریافت کی بازگشت فضا میں موجود تھی۔حالہی میں سانحہ زیارت کے بعد جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاجی دھرنا پاکستانی حکومت کی اس یقین دہانی پر ختم ہوا تھاکہ اب کسی جبری لاپتہ شخص کی لاش نہیں گرے گی کہ پے درپے دو جعلی مقابلوں میں دو دن کے اندر 10 جبری لاپتہ افراد کو قتلکیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عدالت اور حکومتی نمائندگان، پارلیمان میں بیٹھی اپوزیشن جماعتیں اور‘ اسلام آباد حکومت کے اتحادی ‘ جبری گمشدگیوں کی روک تھام میں اپنے وعدوں اور دعوں کے برعکس ناکام ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف انسانی حقوق کے ادارے بھیموثر کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ عوام کو ریاست پاکستان نے حق اور انصاف سے محروم کیا ہے تمام تر پرامن جدوجہداور جبری گمشدگیوں کے خلاف لاکھوں افراد کے احتجاجی مظاہروں کے باوجود پاکستانی فوج اپنے اس قبیح عمل سے دست بردارنہیں ہو رہی یہ گھمنڈ کے ساتھ طاقت کا وحشیانہ استعمال ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کی مکمل تباہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ 16 اکتوبر کو ضلع مستونگ کے علاقے کابو میں مشتاق ولد عبدالرشید، علی احمد ولد تاج محمد، حبیب الرحمن ولدعبد الصمد، عبیداللہ، محمد داود ولد شیر محمد، نیاز محمد ولد عبدالباری کو سی ٹی ڈی نے جعلی مقابلے میں قتل کیا جو کہزیرحراست جبری لاپتہ افراد تھے ، انھیں سی ٹی ڈی نے ‘ داعش کے جنگجو ‘ بتایا تاکہ میڈیا کو گمراہ کیا جاسکے۔
دلمراد بلوچ نے کہا کہ افسوس کا مقام ہے کہ ایک اہم یورپی ملک کے سرکاری میڈیا کی اردو ویب سائٹ پر بلاتحقیق اسے دہشت گردوںکے خلاف کامیاب آپریشن قرار دیا گیا ہے جبکہ مقتولین کی جبری گمشدگی کے کیسز میڈیا اور انسانی حقوق کے رکارڈ کا حصہ ہیں، میڈیا کی غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ ‘
انھوں نے کہا مستونگ میں جعلی مقابلے کے دوسرے دن 17 اکتوبر 2022 کو سی ٹی ڈی نے خاران میں ایک اور مقابلے کا دعوی کیااور اس میں چار مزید جبری لاپتہ افراد ‘ فرید ولد عبدالرزاق ، سلال ولد عبدالباقی ، وسیم تابش اور شکر اللہ ‘ کا حراستی قتل کیاگیا۔انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق فرید ولد عبدالرزاق بادینی سکنہ نوشکے کو 28 ستمبر 2022 کو اور سلال ولد عبدالباقیسکنہ نوشکے کو 6 اکتوبر 2022 کو شال سے اور وسیم تابش کو 9 جون 2021 کو خضدار سے پاکستانی فوج نے حراست میں لےکر جبری لاپتہ کیا تھا۔وسیم تابش براہوئی زبان کے شاعر اور انسانی حقوق کے متحرک کارکن تھے ، جو باقدگی کے ساتھ جبریگمشدگی اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرتے تھے۔
سیکریٹری جنرل نے کہا ہم نے ان حالات میں بھی اپنے ہمسایہ اقوام اور عالمی برادری سے امید باندھی ہے کہ وہ پاکستان کے انمظالم کے خلاف آواز اٹھائیں گے مگر بعض ممالک سے وابستہ کمپنیاں چین کے طرز پر پاکستان کے ہاتھوں بلوچستان میں وسائل کیلوٹ مار اور استحصال میں شراکتدار بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے کینیڈین فرم بیرک گولڈ کی ریکوڈک پروجیکٹ میں شمولیت پر بارہا احتجاجکیا اور مطالبہ کیا کہ پاکستان کو کسی بھی سطح کی مدد فراہم نہیں کی جائے کیونکہ پاکستان عالمی برادری سے حاصل کیے گئےامداد کو بلوچوں کے خلاف استعمال کر رہا ہے لیکن ابھی تک مذکورہ فرم اس پروجیکٹ سے دست بردار نہیں جوکہ افسوس کا مقامہے۔
انھوں نے کہا چین کے بلوچستان میں سی پیک اور دیگر استحصالی پروجیکٹس پر مغربی میڈیا تنقید کرتی ہے لیکن جب مغربی ممالککی کمپنیاں بلوچستان میں چین کے نقش قدم پر چلتے ہیں تو اسے مثبت قرار دیا جاتا ہے یہ دہرا معیار قابل قبول نہیں۔ بیرک گولڈ اورکینیڈین حکومت کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور بلوچ قوم کی آزادی سے محرومی کی صورتحال میں یہاں سرمایہکاری سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ پاکستان انہی وسائل پر قبضے کے لیے بلوچوں کی لاشیں گرا رہا ہے۔