بی این ایم کے ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ملتان کے ہسپتال سے ملنی والی لاشوں کی حالت، لباس اور ان کے ساتھ کیے جانے والے سلوک سے ہمیں خدشہ ہے کہ یہ لاشیں جبری بلوچ لاپتہ افراد کی ہوسکتی ہیں۔
انھوں نے کہا جمعرات کے روز سوشل میڈیا پر دلخراش، ویڈیوز اور تصاویر کے ساتھ یہ خبر وائرل ہوئی کہ نشتر ہسپتال ملتان کی چھت پر پانچ سو کے قریب مسخ شدہ لاوارث لاشیں ملی ہیں۔جنھیں انسانی وقار کے منافی چھت پر پھینکا گیا تھا جن کے گوشت ، چیل اور کوے نوچ کھا رہے تھے۔ان لاشوں کی نشاندہی پنجاب کے وزیراعلی کے مشیر طارق گجر نے کی تھی اس کے باوجود پاکستانی میڈیا نے اس خبر کو دبا کر رکھا ہے اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ سچ پاکستان اداروں کے خلاف ہے ، اس لیے اسے چھپایا جا رہا ہے۔
’رواں مہینے میں پنجاب سے 168 نامعلوم افراد کی لاشیں ملی تھیں جنھیں لاوارث قرار دے کر غائب کردیا گیا۔’
انھوں نے کہا پنجاب سے غیرمعمولی تعداد میں نامعلوم انسانوں کی لاشیں مل رہی ہیں جہاں ماضی میں بھی بلوچ سیاسی قیدیوں کو ٹارچرسیلز میں رکھا جاتا تھا۔اب بھی ہمیں خدشہ ہے کہ یہ لاشیں جبری لاپتہ افراد کی ہیں جن کو اپنے میڈیکل یونیورسٹیوں کے طالب علموں کو پڑھانے کے لیے مذکورہ ہسپتال کے حوالے کیا گیا تھا۔اس بات کا اعتراف ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے کیا گیا ہے کہ یہ لاشیں پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے ہسپتال انتظامیہ کے حوالے کی تھیں جن پر زخموں کی وجہ سے انھیں مردہ خانوں میں رکھنا ممکن نہیں تھا اس لیے انھیں پیوٹریفیکیشن کے لیے چھت پر رکھا گیا تاکہ ہڈیوں سے گوشت الگ ہو اور ہڈیوں کو طالب علموں کو سمجھانے کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
ترجمان نے کہا ماضی بھی بلوچ اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں کہ پنجاب سے اتنی بڑی تعداد میں لاوارث لاشوں کا ملنا معمولی واقعہ نہیں کہ اسے نظرانداز کیا جائے اس لیے بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے ادارے حکومت پاکستان پر زور دیں کہ وہ ان لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹسٹ کروائیں۔