عباس عَلَم بلند کرنے کے لیے ہوتے ہیں ۔ محمد خان داؤد

180

عباس عَلَم بلند کرنے کے لیے ہوتے ہیں

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جان اسٹائن کا ناولthe grapes of wrath ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے
”وہ دکھ کی حد تک خوش تھا“
یہ بس پانچ الفاظ ہیں پر درد سے پُر ہیں
اس کی زندگی بھی تو بس ان پانچ الفاظ جیسی ہی تو تھی
”وہ دکھ کی حد تک خوش تھا“
ہاں وہ خوش تھا،ہاں وہ دکھی تھا
وہ خوشی اور دکھ کے درمیان میں بسنے والا شخص تھا
پر مذہبی جنونیوں نے پہلے اسے پیٹرول چھڑک کر جلایا اور جب وہ جلتا رہا تو اسے پانی میں ڈبو کر ہلاک کر دیا،وہ کیوں نہ ڈوبتا؟آج تک تیرنے کی سائینس ایسی نہیں آئی کہ کوئی پیروں سے تیر سکے۔
وہ پیروں سے چہرے پر آئے بال تو ہٹا سکتا تھا،وہ پیروں سے موچھوں کو تاؤ تو دے سکتا تھا۔وہ پیروں سے چہرے پر آیا پسینہ تو پونچھ سکتا تھا۔وہ پیروں سے سر کے بالوں کو کنگی تو کرسکتا تھا۔وہ پیروں سے چائے کا کپ تو پی سکتا تھا،پر وہ جلتے بدن کی آگ کو پیروں سے کیسے بجھاتا۔

وہ بدن پر چھڑکا گیا پیٹرول اور اسی پیٹرول کو دکھائی گئی تیلی اور اسی تیلی بھڑکتی آگ اور اس آگ سے جھلتا بدن کیسے بجھا سکتا تھا۔وہ اس لگی آگ میں کوئلے کی طرح جل گیا اب میر پور ماتھیلو کا اسلام،ایمان سلامت ہے اب اس ایمان کو کوئی خطرہ نہیں جس اسلام کو بس ایسے شخص سے خطرہ تھا جس کا پورا جیون ہی پیروں تک محدود تھا،وہ چلتا بھی پیروں سے تھا اور کھاتا بھی پیروں سے تھا،وہ خوش میں تالی بھی پیروں سے بجاتا تھا اور روتی آنکھوں سے آنسو بھی پیروں سے پونچھتا تھا،وہ خوشی کے گیت بھی پیروں کی انگلیوں سے لکھتا تھا اور اداسی کے نوحے بھی پیروں سے لکھتا تھا،
اس کے پیر ہی آخری اور پہلا جیون تھا
جنونیت نے آج ان پیروں کو روند دیا!
جنو نیت نے اسے ایسے جلایا جس کے لیے غالب نے کہا تھا کہ
”جلا ہے جسم تو دل بھی جل گیا ہوگیا
کُریدتے کیا ہو،جستجو کیا ہے!“
وہ پیر جو پہلے بھی تلاش حیات تھے،پھر پھر بھی تلاشِ حیات ہی رہے
جب جنونیوں نے عباس کلھوڑو کے جسم کو جلایا تو وہ پیر اس آگ کو کیسے بجھاتے؟اس لیے وہ پیر آب کی تلاش میں دوڑے اور جنونیوں نے اس جلتے جسم کو پانی میں ڈبو کر مار دیا،کیا خدا کا اسلام ایسا نازک ہے کہ ایک معذور انسان اس اسلام کو چھیڑے اور اسلام میں نقص ظاہر ہونے لگیں اور ہجوم میں جنونیت بھر جائے اور ہر کھڑا شخص اس انسان پر پتھر پھینکے جس پر یہ الزام لگا۔
یہ ایک تما شہ ہے،ازل سے جاری ہے۔یہ تماشہ کب رُکے گا،
یہ تو آج کا قصہ ہے،پر کیا آپ حضرات سے وہ شخص بھول گیا ہے جو بھاول پور میں مسجد میں بیٹھا قرآن پڑھ رہا تھا،وہ توہین ِ مذہب کے الزام میں دھرلیا گیا۔مسجد کے باہر ہجوم بے شعوراں جمع ہونے لگا۔پولیس موقع پر پہنچ گئی،پولیس نے ا س شخص کو اپنے ساتھ لیا اور تھانے لے آئی وہ ہجومِ بے شعوراں تھانے بھی پہنچ گیا اور اس شخص کو پولیس کی تحویل سے لے کر زندہ جلا دیا،وہ بھی تین بار پھر اس کی خاک پر راکھ پر گدھا گاڑیاں دوڑائی گئیں اور تیجے پر اسی شخص کے لیے قرآن پڑھا جا رہا تھا!
تو ہجوم جب بھی بے قابو تھا ہجوم اب بھی بے قابو ہے
جنونیت جب بھی آزاد تھی،جنونیت اب بھی آزاد ہے
فیصلہ تب بھی ہجوم کرتا تھا،فیصلہ اب بھی ہجوم کرتا ہے
قانون جب بھی تماشائی تھا،قانون اب بھی تماشائی ہے
ہجوم تب بھی بے قابو تھا،ہجوم اب بھی بے قابو ہے
ہجوم نے کل مشال خان کو جلایا تھا،ہجوم نے آج عباس کلھوڑو کو جلایا ہے
تو کیا بدلہ ہے؟
کل بھی جسم جلائے جا رہے تھے،آج بھی جسم جلائے جا رہے ہیں
کل بھی جسم کو لوہی سیکھوں،سریوں،پتھروں اور بلاکوں سے کچلا جا رہا تھا
اور آج بھی لوہی سیکھوں،سریوں،پتھروں اور بلاکوں سے جسم کو کچلا جا رہا ہے
کل بھی ہجوم تھا
آج بھی ہجوم ہے
کل بھی منصور سرمد مقتل میں تھے
آج بھی مشال،ڈی سلوا اور عباس کلھوڑو مقتل میں ہیں
تو کیا بدلہ ہے؟
کل بھی تہمت کا بازار گرم تھا
آج بھی تہمت کا بازار گرم تھا
کل بھی الزام پر جسم جلایا جا رہا تھا
آج بھی الزام پر جسم جلایا جا رہا ہے
تو کیا بدلہ ہے
کل بھی بھاول پور کے مقتول کی فاتحہ پر قرآن پڑھا جا رہا تھا
آج بھی میر پور ماتھیلو کے مقتول پر قرآن پڑھا جائے گا
تو کیا بدلہ ہے؟
مقتول بھی وہ جس کی تمام تر زندگی پیروں تک محدود تھی
اس کی آنکھیں ”پیر“ تھے
اس کا جیون”پیر“ تھے
اس کا چلنا”پیر“تھے
اس کا ٹھہرنا”پیر“تھے
اس کا اُٹھنا”پیر“ تھے
اس کا بیٹھنا ”پیر“ تھے
اس کا سارا درد”پیر“تھے
اس کی ساری خوشی”پیر“تھے
وہ پیر جو رقص عشق ہوا کرتے تھے
وہ پیر آج تلاش ِ حیات تھے
اور پیروں سے کون تیرتا ہے؟
جب جسم جلتا ہے تو دل تو جل ہی جاتا ہے!
وحشیوں نے تو مذہب کے نام پر عباس کا جسم جلا دیا
کیا ہم احتجاج میں آج سوشل میڈیا پر آگ نہیں لگا سکتے
اور احتجاجاً یہ نہیں لکھ سکتے
عباس جلنے کے لیے نہیں عَلَم بلند کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں