شمالی کوریا نے جمعے کو ایک اور بیلسٹک میزائل تجربہ کیا ہے جبکہ اس کے جنگی جہازوں نے جنوبی کوریا کے ساتھ ملنے والی سرحد کے قریب پروازیں بھی کی ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق شمالی کوریا کے اس تازہ ترین تجربے نے اس خطے میں پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
جمعے کو علی الصبح کیے جانے والے اس تجربے میں کم فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کا تجربہ کیا گیا۔
جنوبی کوریا کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے شمالی کوریا کی جانب سے آرٹلری کے 170 گولوں کی فائرنگ کا بھی مشاہدہ کیا ہے، جو مشرقی اور مغربی ساحل کے جانب کی گئی ہے۔ ان میں سے کچھ گولے اس بفرزون کے اندر گرے ہیں جو جنوبی کوریا اور شمالی کوریا نے فوجی معاہدے کے تحت 2018 میں قائم کیے تھے۔
گو کہ ان گولوں میں سے کوئی بھی جنوبی کوریا کی سمندری حدود میں نہیں گرا تاہم بفرزون میں گولوں کا گرنا بھی 2018 کے معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے مطابق جمعے کو جس میزائل کا تجربہ کیا گیا ہے وہ شمالی کوریا کے دارالحکومت پیانگ یانگ کے خطے سے صبح ایک بجکر 49 منٹ پر داغا گیا۔
امریکہ اور اس اتحادی حالیہ ہفتوں میں شمالی کوریا کی جانب سے کیے جانے والے میزائل تجربات کی شدید مذمت کر چکے ہیں جبکہ جنوبی کوریا نے گذشتہ پانچ سال میں پہلی بار شمالی کوریا پر یک طرف پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں۔
جمعے کو کیے جانے والے تجربے کے حوالے سے جاپانی وزیردفاع یاسوکازو حمادا نے کہا کہ یہ میزائل ’ایک بے قاعدہ‘ انداز میں پرواز کرتے دیکھا گیا۔
جس سے ان کی مراد ممکنہ طور پر اس بات کی جانب سے ہو سکتی ہے کہ یہ میزائل روس کے اسکندر میزائل کے ماڈل پر بنا ہوا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا: ’کوئی بھی مقصد ہو، شمالی کوریا کے بیلسٹک میزائل کے تجربات کی قطعی طور پر اجازت نہیں دی جا سکتی اور ہم میزائل ٹیکنالوجی میں قابل ذکر پیش رفت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔‘
ان کے مطابق: ’شمالی کوریا کے اقدامات جاپان اور خطے کے دوسرے ممالک سمیت عالمی برادری کے لیے خطرے کا باعث اور ناقابل برداشت ہیں۔‘
خطے میں موجود امریکی انڈو پیسیفک کمانڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ شمالی کوریا کے تجربے سے امریکی اہلکاروں یا علاقوں اور اتحادیوں کو کوئی فوری خطرہ نہیں ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ جاپان اور جنوبی کوریا کے دفاع کا امریکی عزم ’آہنی‘ ہے۔
اس سے قبل سوموار کو شمالی کوریا نے کہا تھا کہ اس کے حالیہ میزائل تجربات ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کی مشقوں کا حصہ تھے، جن کا مقصد امریکہ اور جنوبی کوریا کے ممکنہ اہداف کو ’نشانہ بنانا اور مٹانا‘ تھا۔
شمالی کوریا کے سرکاری ذرائع ابلاغ پر سوموار کو نشر ہونے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے عندیہ دیا ہے کہ وہ آنے والے ہفتوں میں اشتعال انگیز مزید تجربات کریں گے۔
شمالی کوریا کی حکمران جماعت کے 77 ویں یوم تاسیس کے موقعے پر ملک کے سرکاری خبر رساں ادارے کورین سینٹرل نیوز ایجنسی (کے سی این اے) کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’ٹیکٹیکل جوہری آپریشن یونٹس کی میزائل داغنے کی سات بار کی جانے والی مشقوں کے ذریعے جوہری جنگی فورسز کی حقیقی جنگی صلاحیتیں ظاہر کی گئیں کہ وہ کسی بھی جگہ، کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے اور مکمل تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
کے سی این اے کا کہنا تھا کہ میزائل تجربات امریکی اور جنوبی کوریائی افواج کی ان بحری مشقوں کے جواب میں کیے گئے، جن میں جوہری طاقت سے چلنے والے طیارہ بردار بحری جہاز یو ایس ایس رونلڈ ریگن نے حصہ لیا۔
نیوز ایجنسی نے کہا کہ مشقوں کو ایک فوجی خطرے کے طور پر دیکھتے ہوئے شمالی کوریا نے اپنی جنگی صلاحیت کو جانچنے، بہتر بنانے اور دشمنوں کو وارننگ دینے کے لیے ’حقیقی جنگ کی نقل‘ کرنے کا فیصلہ کیا۔
شمالی کوریا، امریکہ اور جنوبی کوریا کی فوجی مشقوں کو حملے کی مشق سمجھتا ہے، حالاں کہ دونوں اتحادی ملکوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ مشقیں دفاعی نوعیت کی تھیں۔
کے سی این اے کے مطابق شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کا کہنا ہے کہ یہ میزائل تجربات جنوبی کوریا اور امریکہ کے لیے ’واضح انتباہ‘ ہیں، جو انہیں شمالی کوریا کی جوابی ایٹمی صلاحیت اور حملے کی صلاحیتوں سے آگاہ کرتے ہیں۔
کم جونگ ان کے بقول: ’امریکہ اور جنوبی کوریا کی حکومت کی جانب سے کشیدگی میں اضافہ کرنے کی مستقل، جان بوجھ کر کی جانے والی اور غیر ذمہ دارانہ کارروائیاں صرف ہمارے بڑے ردعمل کو دعوت دیں گی اور ہم صورت حال کے بحران پر مستقل اور سختی سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘
شمالی کوریا نے گذشتہ دو ہفتے سے بھی کم وقت میں پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے چھ سے زائد میزائل میزائل تجربات کیے ہیں۔ گذشتہ جمعرات کو بھی بیلسٹک میزائلوں کے دو تازہ ترین تجربات کیے گئے۔