شال کو چھوڑ نا آسان نہیں
تحریر: مرتضیٰ بزدار
دی بلوچستان پوسٹ
شال بلوچ قوم کا دل اور بلوچ نوجوانوں کی جان ہے۔اسلیۓ جو نوجوان ایک بار شال کی خشک ہواؤں سے ہم آغوش ہو جائے وہ زندگی بھر کیلئے اسی کا ہو کے رہتاہے۔کیو نکہ اپنی جان سے روح کا ملنا ایک مقدر یا پھر قدرت کا کرشمہ ہوتا ہے۔شال بلوچ نوجوانوں کے لیے ماں کا درجہ رکھتا ہے۔اسلیۓ اپنی ماں کو درد ؤ تکلیف کی حالت میں کوئی نہیں چھوڑ سکتا ہے۔ شال بلوچ نوجوانوں کی محبت ہے اور محبت عمر بھر کیلئے ہوتاہے۔جو ایک بار اس کی محبت میں سما جائے وہ پھر اس شال کی محبت کو اپنا دین ؤ ایمان مانتا ہے۔ وہ کسی کی محبت سے بڑھ کرشال کی محبت کا دیوانہ ہو جاتا ہے۔اور دیوانے ہمیشہ اپنے محبوب کے لیے سب سے قیمتی چیز اپنی جان کو لُٹا دیتا ہے۔ پھر یہ پُرسکون ہو جاتا ہے۔ یہاں بےشمار دیوانوں نے اپنی جانیں واری ہیں۔ اسکے کئی مثالیں ،ماضی ،حال میں موجود ہیں اور مستقبل میں بھی بے شمار دیوانے نظر آرہے ہیں جو اپنی جانوں کا نظرانہ شال کے لیے دینے کو بالکل تیار اور انتطار میں بیٹھے ہیں۔ جب اتنی محبت انسان کے دل ؤ جان میں سما جائے تو اس دیوانگی اور چاہت کو یوں چھوڑنا بھی کسی دیوانے کاکام ہی ہوگا۔لیکن عام انسان کے لیے یہ سب کچھ یہ شال کی دنیا،شال کی سیاست اور شال کی یادؤں سے نکلنا کہاں ممکن ہے ۔
یہ ایک ناممکن اور نہ ختم ہونے والی چاہت ہے۔جو شال اپنے بچوں کو ماں کی شکل میں دیتی ہے۔ پھر کئی بچے اس ممتا کی چاہت کو اپنا عشقِ حقیقی مانتے ہیں۔اور عشق کے لیے جان کو وارنا محبت کے اصولوں کا حصہ ہے۔ یہ دیوانے پھر کئی میل دور جاتے ہیں۔ کیونکہ محبوب سے دوری محبوب کی چاہت میں اور اضافہ کر دیتا ہے۔ پھر دیوانہ اسی چاہت کیلیئے تڑپتا ہے۔ بےتاب ہو جاتا ہے بےزار ہوجاتا ہے۔اور اس کو حاصل کرنے کی لیے ہر ممکن ؤ ناممکن کوشش بجا لاتا ہے۔ اور امید باندھتا ہے کہ ایک نہ ایک دن ضرور وہ واپس اس چاہت،محبت اور شال کی ٹھنڈی ہواؤں سے لطفُ اندوز ہوگا۔ پھر آخر کار یہ اُمید اس کی جان تک لے کر رہتاہے۔مگر وہ شال کا نوجوان پرُ امید پرُ سکون ہوکر شال کی مٹی میں اپنا مٹی ہضم کر دیتاہے۔
شال بلوچ نوجوانوں کیلیے ایک قبلے کی حیثیت رکھتاہے۔ کئی نوجوان شال کو اپنا سیاسی قبلے کا درجہ دے چکے ہیں اور سیاست کی مذہب میں اسی کا پوجا کرتے ہیں۔ بقولِ نواب اکبر خان بگٹی “شال بلوچ قوم کا یروشلم (jerusalem ) ہے” یعنی بلوچ کا قبلہ اول شال ہے۔جس طرح مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدّس ہے۔ اور ایسے کئی نوجوان ہیں جو شال سے عقیدہ رکھتے ہیں۔اور شال کو ایک مقدس سرزمین کا درجہ دیتے ہیں۔ ہر کسی کا اپنا اپنا عقیدہ لیکن مجھے اسی شال نے بنایا ھے میرا سیاسی استاد یہی شال ہے۔ میں آج اگر چار ٹوٹے پھوٹے الفاظ قلم کے نوک پہ لارہا ھوں تو وہ اسی شال کے مرہونِ منت ہیں شال میرا قبلہ شال میری ماں اور شال میرا استاد ہے شال میری جان، شال میرے دل کی دھڑکن، شال میری سرزمین ہے۔ اسلیۓ شال کو چھوڑنا یوں آسان نہیں لیکن اب چند مجبوریوں اور ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلۓ شال کو چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ لیکن مجھے یقین ہے شال مجھے واپس بلاۓ گا شال کی چاہت ضرور اپنی طرف کھنچے گا۔ لازماً مجھے واپس اپنی گود میں لے گا۔اور ہمیشہ ہمیشہ کیلۓ اپنی سرزمین میں سماۓ گا۔
شال تو آباد رہے مسکرتا رہے اور یوں ہی تیرے چرچے شاد رہیں۔ اے شال تیری کون کونسی یاد کو کون کونسے الفاظ میں بیان کروں ۔ شال میرا دوسرا محبوب ہے۔ایک محبوب نے اکتوبر 2010 کو مجھے چھوڑا ہے، اور دوسرا محبوب شال کو اکتوبر 2022 کو میں چھوڑ رہا ہوں۔ نہ جانے اکتوبر خان کی ہم سے کیا جنگ ہے۔ لیکن ہار ماننے والے ہم بھی نہیں ، یہ اکتوبر کی جنگ جارہی رہے گا ۔جب تک زندگی ھے جنگ و جدل لازمی ھے کیونکہ مزحمت زندگی ہے۔
تو است ءُ آباد باتءِ شال
تئ داتگیں مہر سلامت باتاں شال
تئ تُوکاءِ مہروانیں سنگت مدام وش باتاں شال
تئی سیاست سلامت باءَ شال ۔
تئی عبادت سلامت باءَ شال۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں