مغربی بلوچستان کے سنی پیشوا مولوی عبدالحمید نے گذشتہ روز نماز جمعہ کے بعد زاہدان میں پیش آنے والے واقعہ کے متعلق ایک پیغام جاری کرتے ہوئے اس واقعے کو المیہ قرار دیتے ہوئے لوگوں کو قتل کرنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی پر زور دیا ہے۔
نماز جمعہ کے امام نے کہا “گولیاں زیادہ تر نمازیوں کے سروں اور دلوں میں فائر کیے گئے ہیں، اور یہ واضح ہے کہ یہ سنائپرز کا کام تھا۔”
واقعہ کے متعلق مولوی عبدالحمید نے تفصیلات کچھ یوں بیان کیا کہ “جمعہ کی نماز کے چند منٹ بعد نماز ادا کرنے کے دوران فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ کچھ نوجوان نماز پڑھنے کے بعد قریبی پولیس اسٹیشن کے سامنے جمع ہوئے و نعرے بازی کی اور ان میں سے کچھ نے پولیس اسٹیشن پر پتھراؤ کیا”۔
ان کے مطابق انہیں موصول اطلاعات کے مطابق “اسپیشل فورسز ، جو پہلے سے ہی پولیس اسٹیشن میں تعینات دکھائی دیتی ہیں، نے لوگوں پر فائرنگ شروع کی، اور اس دوران نہ صرف پولیس اسٹیشن کے سامنے جمع ہونے والے نوجوانوں کی طرف بلکہ پولیس کی عمارت سے دیگر نماز ادا کرنے والوں کی طرف فائرنگ کی گئی۔”
انہوں نے مزید کہا کہ گھروں کی چھتوں پر تعینات سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح افراد اپنے گھروں کو واپس جانے والے افراد پر فائرنگ کر رہے تھے اور ان میں سے زیادہ تر گولیاں ان نمازیوں کے سروں اور دلوں پر فائر کیے گئے اور یہ واضح ہے کہ یہ سنائپرز کر رہے تھے۔ مولوی عبدالحمید نے اس واقعے کو “ایک بہت بڑا ظلم قرار دیا۔”
نماز جمعہ کے امام نے پولیس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کا استعمال کیوں نہیں کیا۔
ان کے مطابق “اس واقعے میں 40 سے زیادہ نمازی جانبحق اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔”
خیال رہے کہ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاسداران انقلاب کے حکام نے کہا ہے کہ وہ ‘دہشت گردوں سے سخت انتقام’ لے رہے ہیں اور پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف حسین سلامی نے گذشتہ روز دھمکی دی تھی کہ ‘زاہدان کے بلیک فرائیڈے جرم کے شہدا کے خون کا بدلہ لینا ہمارے ایجنڈے میں شامل ہے۔’ خبر رساں ادارے “ھال وش” کے مطابق صوبے کے شہروں میں انٹرنیٹ منقطع ہے۔
خبررساں ادارے کے مطابق “سیکیورٹی” وجوہات کی بناء پر زاہدان اور میرجاوہ، نصرت آباد اور کورین سمیت کئی شہروں میں کل اور آج اسکولوں کو بند کر دیا گیا اور صوبے کی جامعات 7 اکتوبر تک بند ہوں گے۔
خبر رساں ادارے کے مطابق گذشتہ دو روز کے دوران زاہدان میں ہونے والی جھڑپوں میں پاسداران انقلاب اور بسیج کے پانچ اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں علی موسوی بھی شامل ہیں جن کا اصل نام حامد رضا ہاشمی ہے جو سیستان اور بلوچستان کے پاسداران انقلاب کے ڈپٹی انٹیلی جنس ڈائریکٹر تھے۔
تسنیم نیوز ایجنسی نے یہ بھی بتایا کہ زاہدان میں گذشتہ رات “اکا دکا واقعات پیش آئے ہیں جس میں پاسداران انقلاب کا ایک اہلکار ہلاک اور تین افراد زخمی ہوئے۔”
زاہدان میں جمعے کے روز ہونے والی جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی اور اعداد و شمار سامنے نہیں آئی ہیں۔
سرکاری طور پر کل تک ہلاکتوں کی تعداد 19 ہے لیکن بلوچ ایکٹوسٹ نے 42 افراد کے نام جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام شہری جمعے کے روز سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔ جمعے کے روز ہونے والے واقعات کے بارے میں حکومتی بیانات اور مقامی ذرائع کی جانب سے حکومت سے آزادانہ طور پر رپورٹ کیے جانے والے واقعات کے درمیان اہم اختلافات پائے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ مغبربی بلوچستان کے ساحلی علاقے چابہار میں ایرانی فورسز کے کمانڈر کرنل ابراہیم کوچکزئی کی جانب سے 15 سالہ بلوچ لڑکی کی عصمت دری کے خلاف جمعے کے روز ایک ریلی نکالنے کی کال جاری کی گئی تھی۔ نماز جمعہ کے بعد نمازیوں کا ایک گروپ جائے وقوعہ کے قریب واقع پولیس اسٹیشن کی طرف بڑھا، جہاں وہ چیک پوائنٹ کے سامنے جمع ہوئے۔ یہاں سے شہریوں کے درمیان احتجاج نے وسعت اختیار کی اور پورے شہر میں پھیل گیا۔ ان مظاہرین پر ایرانی فورسز نےفائرنگ کھول دی تھی جس کے بعد پرتشدد مظاہروں کا آغاز ہوا۔