بلوچ پیپلز کانگریس کے سیکریڑی جنرل صدیق آزاد نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ گذشتہ جمعہ کے روز زاہدان کے عوام نماز جمعہ کے بعد مسجد سے ملحقہ عیدگاہ کے قریب ایران کے عوام کی ملک گیر احتجاج کی حمایت اور چابہار میں پولیس کمانڈر کے ہاتھوں پندرہ سالہ بلوچ لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کے خلاف پر امن احتجاج کیلئے جمع ہوگئے تھے۔ جس پر اسلامی جمہوریہ ایران کی جابر قوتوں نے پوری تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ پرامن احتجاج اور عوامی جدوجہد کو روکنے اور دہشت پھیلانے کے لیے مظاہرین پر گولیاں چلا ئیں ۔
انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں کئی بچے اور خواتین سمیت درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔
اگرچہ مظاہرین غیر مسلح تھے لیکن پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیوں نے زاہدان کے علاقے میں بہت زیادہ فوجی کاروائی کی لوگوں کے گھروں میں گھس کر دہشتگردی کی اور شہری علاقوں پر ہیلی کاپٹروں کے ذریعے فائرنگ کی۔ ماضی کی طرح ایرانی فورسز بلوچی لباس میں ملبوس مظاہرین میں شامل ہوکر سرکاری اور ذاتی املاک کو نقصان پہنچاتے رہے، تاکہ وہ عوام کے شہری احتجاج کو تخریب کاری کی شکل دے سکیں اور قتل و غارت گری کا جواز فراہم کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس مجرمانہ فعل میں زخمی ہونے والے درجنوں افراد زاہدان کے اسپتالوں میں زیر علاج ہیں، جب کہ سیکیورٹی فورسز نے طبی عملے کو اپنے فرائض انجام دینے سے روک رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت سے وابستہ نیوز ایجنسیاں قتل و غارت کی خبروں کو سنسر کرکے اور لوگوں کو دبانے اور جعلی خبریں نشر کرکے لوگوں کی جدوجہد کو موڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ زاہدان میں مارشل لاء کا اعلان کر دیا گیا ہے اور وسیع پیمانے پر لوگوں کی گرفتاریان عمل میں لائی جارہی ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ بلوچ پیپلز کانگرس ایرانی مقبوضہ بلوچستان کے عوامی جدوجہد کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہوئے بلوچ عوام کے قتل عام کی شدید کی مذمت کرتاہے – زاہدان اور مغربی بلوچستان کے دیگر مقامات میں عوامی مظاہروں کے دوران گرفتار ہونے والے تمام افراد کی رہائی، مظاہروں میں زخمی ہونے والوں کے علاج معالجے اور عوام کی دادرسی کی حق کا مطالبہ کرتا ہے۔