ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سیستان بلوچستان کے علاقے زاہدان میں 30 ستمبر کو ہونے والے واقعے متعلق اپنے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اس دوران پرتشدد واقعات کے دوران 82 افراد جانبحق ہوئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل مطابق کہ ایرانی بلوچستان میں 30 ستمبر کو جمعہ کی نماز کے وقت اہل سنت کی مسجد میں ایرانی فورسز کی فائرنگ سے 66 افراد جانبحق اور سینکٹروں زخمی ہوگئے۔ اس کے بعد مسلسل مظاہروں اور ان پہ سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے باعث مزید 16 افراد جانبحق ہو چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق یوں ایرانی بلوچستان کے مظاہرین پہ ایرانی فورسز کے کریک ڈاؤن کے دوران اب تک 82 افراد جانبحق اور سینکڑوں زخمیوں کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ جانبحق ہونے والوں میں چھوٹے بچوں کی بھی کافی تعداد شامل ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کارکنوں، متاثرین کے اہل خانہ، عینی شاہدین کی شہادتوں اور مظاہروں کی تصاویر اور ویڈیوز سے حاصل ہونے والے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ زاہدان میں مرنے والوں کی اصل تعداد زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
خیال رہے کہ مغربی بلوچستان کے علاقے راسک میں مولوی عبدالحمید نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ایرانی فورسز کے ایک اعلیٰ آفیسر کمانڈر کرنل ابراہیم کوچکزئی نے ایک کمسن بچی کو تفتیش کے نام پر حراست میں لیا ہے جبکہ دوران حراست بچی کو مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
اس کے بعد مغربی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا، جبکہ 30 ستمبر بروز جمعہ زاہدان میں عوام نے نماز جمعہ کے بعد مظاہرہ شروع کیا۔ علاقائی ذرائع الزام عائد کررہے ہیں کہ مظاہرے کے دوران فورسز نے مظاہرین پر فائرنگ کھول دی جس کی وجہ سے متعدد افراد جانبحق و زخمی ہوئے ہیں۔
انہی مظاہروں کے دوران سیستان اور بلوچستان کے پاسداران انقلاب کے انٹیلی جنس کمانڈر علی موسوی بھی سینے میں ایک گولی لگنے سے زخمی ہو گئے تھے اور اسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے تھے۔