حکومت اور کوہ سلیمان میں بنیادی سہولیات کا فقدان
تحریر: سمّو بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
موضوع پر جانے سے پہلے میں ڈیرہ جات کا ایک مختصر تعارف کرنا چاہونگی۔ ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسمائیل خان، تونسہ شریف اور کوٹ چھٹہ کو بلوچ ڈیرہ جات میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں کئی سالوں سے بلوچ آباد ہیں اور یہاں کے آبادی کی %90 بلوچ ہیں اور باقی %10 میں سندھی پنجابی اور مہاجر شامل ہیں جو کہ سندھ پنجاب اور آس پاس کے علاقوں سے آکر یہاں آباد ہوگئے۔
ڈیرہ جات کی ایک مختصر تاریخ:
تاریخ کے حوالے سے بات کریں تو ڈیرہ جات میں چانڈیو حکومت ہوا کرتی تھی۔سنہ 1445 کو یہاں فتح خان اور سہراب خان دودائی کی حکومت قائم ہوئی۔1449ء کو میر حاجی خان میرانی نے تمام ڈیرہ جات کے نام اپنے فرزندوں کے نام سے رکھے۔جس میں ڈیرہ غازی خان کا نام غازی خان میرانی کے نام سے رکھا۔کوٹ چھٹہ کا چھٹہ خان کے نام سے رکھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان کا اسماعیل خان میرانی کے نام سے رکھا۔ڈیرہ فتح خان کا فتح خان میرانی کے نام سے رکھا۔ڈیرہ فتح خان کو اب تونسہ شریف بھی کہا جاتا ہے۔اور بنوں کا نام اپنی بیٹی بنو کے نام سے رکھا اور وہاں ان کی حکومت قائم کردی۔
ڈیرہ جات پر کئی بیرونی طاقتوں نے قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
1700 کو اورنگزیب نے ڈیرہ جات پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور وہاں قابض ہوگیا، میرانی خاندان نے اس کے خلاف جنگ جاری رکھی جس کا فائدہ نادر شاہ نے اٹھایا اور جب 1739 کو اورنگزیب کی حکومت کمزور ہوئی تو نادر شاہ نے ڈیرہ جات پر قبضہ کیا۔اسی دوراں ڈیرہ غازی خان پر حکومت کرنے والا غازی خان میرانی کو گرفتار کر لیا گیا اور حیدرآباد جیل میں قید کر دیا گیا جہاں وہ بعد میں انتقال کر گئے۔
نادرشاہ کے خلاف جنگ جاری رہی اور 1758 کو مزاری قبائل نے نادرشاہ کو شکست دی اور ڈیرہ جات کو خان آف قلات کے حوالے کردیا۔
1827 تک ڈیرہ جات خان آف قلات کے زیر حکومت رہی۔1829 کو رنجیت سنگھ نے ڈیرہ جات پر قبضہ کرلیا ۔اس کے خلاف بلوچ عوام نےمزاحمت اختیار کی اور ڈیرہ جات کو آزاد کردیا۔1849 کو انگریزوں کی حکومت شروع ہوئی انہوں نے ڈیرہ جات پر بھی قبضہ کر لیا۔بلوچ قبائل نےاپنی جنگ ان کے خلاف بھی جاری رکھی مگر انگریز حکومت بہت طاقت ور تھی او اس نے 1887 کو ڈیرہ جات پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا۔
1946 کو نواب اکبر بگٹی اور دیگر کئی سرداروں نے ڈیرہ جات کو بلوچستان میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ بلوچستان کے ساتھ ساتھ ڈیرہ جات کو بھی آزاد کیا جائے۔
1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا کہ ڈیرہ جات کو ایسے ہی رہا دیا جائے جب تک یہاں کی عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خو نہ کرلیں۔
1949کو ڈیرہ جات کو بلوچستان میں شامل کرنے کا فیصلہ ہوا اور عوام اس فیصلے سے اتفاق رکھتی تھی مگر حکومت پنجاب نے اس فیصلے کو مسترد کردیا اور یہ کہہ کر کہ یہ علاقے پنجاب میں ترقی کرینگے 1950 کو زبردستی ڈیرہ جات کو صوبہ پنجاب میں شامل کیا گیا جو آج تک اس میں شامل ہیں۔
ڈیرہ غازی خان:
ڈیرہ غازی خان میں میر حاجی خان میرانی کے بیٹے غازی خان میرانی کی حکومت قائم تھی۔ یہ ایک بہت بڑا علاقہ ہے جس کو اب ایک ڈویژن کے طور پر مانا جاتا ہے۔اس میں چار ڈسٹرکٹس (ڈیرہ غازی خان۔لیہ۔مظفر گڑھ اور راجن پور ) شامل ہیں۔اور تحصیل کی بات کریں تو اس میں (تونسہ۔کوہ سلیمان۔ڈیرہ غازی خان اور کوٹ چھٹہ)شامل ہیں۔
کوہ سلیمان:
کوہ سلیمان ضلع ڈیرہ غازی خان کے مغرب میں موجود ایک بہت بڑا پہاڑی سلسلہ ہے۔
محلِ وقوع:
کوہ سلیمان کے محلِ وقوع کی بات کریں تو یہ شمال میں افغانستان مشرق میں ڈیرہ غازی خان۔تونسہ۔راجن پور۔اور ڈیرہ اسمائیل خان کے اضلاع سے جا ملتا ہے۔مغرب میں درہ بولان ہےجبکہ جنوب میں کوہ کیرتھر ہے۔
کوہ سلیمان کی موجودہ صورتحال:
کوہ سلیمان کے موجودہ صورتحال کی بات کریں تو آج جن مسائل سے یہاں کے لوگ دو چار ہیں ان کو بیان کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ان احساسات کو شاید ہی کوئی الفاظ میں بیان کر سکے۔
غربت۔تعلیم نہ ہونا ۔پینے کا پانی نہ ہونا ۔ھسپتال نہ ہونے کے باعث اپنے پیاروں کو کھودینا۔اور کتنے دکھوں اور مشکلوں سے گزر رہی ہے یہ عوام ، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
تعلیم کی حوالے سے بات کریں تو یہاں تعلیم کا نظام ہی نہیں ہے یہاں سکول اگر ہیں بھی تو صرف نام کے وہ بھی سالوں پرانے جہاں صرف ایک کمرے یا دو کمرے بنے ہوئے ہیں۔کہیں تو یہ احسان حکومت نے لگا دیا ہے لیکن ایسے بھی کئی علاقے ہیں جہاں سکول نہیں۔لوگ اپنے بچوں کو کئی کئی کلومیٹرز کا فاصلہ طئے کرا کر پڑھنے بھیجتے ہیں لیکن تب پتہ چلتا ہے اسکول میں جو اساتذہ ہیں وہ صرف اپنی آمدنی لیتے ہیں بچوں کو تعلیم نہیں دیتے۔ پہاڑوں میں سکول صرف مڈل تک ہی ہیں۔اس کے بعد کی پڑھائی کے لیے بچوں کو شہر (ڈیرہ غازی خان۔تونسہ۔)جانا پڑتا ہے لیکن یہ علاقے بھی تو ڈیرہ جات کے حصے میں آتے ہیں تو یہاں بھی حکومت نے کوئی اچھی تعلیم نہ دی۔سکول کالجز بنائے تو ہیں لیکن یہ دنیا کو دکھانے کے لیے کہ ان علاقوں کو پنجاب میں ترقی دی جارہی ہے۔لیکن یہاں بھی میں کوئی خاص پڑھائی نہیں ہوتی جیسا اپر پنجاب میں ھوتی ہے۔جب ھم شھروں میں جاتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں کئی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے کبھی ہمیں یہ کہہ کر ڈی گریڈ کیا جاتا ہے تم لوگ یہاں کے قابل نہیں ہو جاو اپنے پہاڑوں پر رہو وہیں بھیڑ بکریاں چراو یہاں کیا کام تمہارا ۔ تو کھبی کہتے ہیں کہ تم بلوچ ہمارے علاقوں میں کیوں آتے ہو جہاں ہو وہاں کیوں نہیں پڑھتے۔ علاقے تو خیر ہمارے ہی ہیں جن پر یہ لوگ قابض ہیں اور اپنا ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ ہر قدم پر ہمیں یہاں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم لوگ غلام ھو اور ہم تم پر حاکم ہیں ۔
کوہ سلیمان میں پانی کا بھی کوئی صحیح نظام نہیں یہاں کے انسان جانور سب ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔یہاں پانی کا واحد ذریعہ بارش کا پانی ہے یا پھر نلکے ہیں جو کہ لوگوں نے خود لگائے ہوئے ہیں۔ بارش کا جو پانی اکٹھا ہوتا ہے تو پورا سال لوگ اسی پانی پر گزارا کرتے ہیں اور جب وہ پانی ختم ہو جاتی ہے تو لوگ دوردور پانی بھرنے جاتے ہیں اور کئی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔پانی انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے لیکن ھکومت نے اس کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔
یہاں کئی بیماریاں بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں جن کی وجہ یہ آلودہ پانی پینا اور یہاں سے یورینیم نکالنا ہے۔کوہ سلیمان سے یورینیم نکالی جاسکتی ہے لیکن ایک ھسپتال نہیں بنایا جا سکتا یہ جانتے ہوئے کہ یورینیم سے جو کیمیکلز اور ریڈیشن خارج ہوتی ہیں ان سے لوگوں کو کئی جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ھسپتال کے لیے بی ھمیں شھروں کا رخ کرنا پڑتا ہے ۔اور شھروں میں جانا بھی کوئی آسان بات نہیں۔کوہ سلیمان کے گھٹ رستوں سے گزرنا بہت مشکل ہے اور سڑکوں کا یہ حال یہ ہے کہ یہ سڑک نہ ہوتے تو بہتر تھا۔ھکومت نے سڑکوں کی طرف بھی کوئی خاص توجہ نہیں دیا۔ان سڑکوں کی وجہ سے کئی حادثات پیش آئے اور کئی جانیں گئیں۔
کوہ سلیمان میں ھسپتال اور ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے کئی خواتین اپنی پریگننسی میں جان سے چلی جاتی ہیں اور کئی بار زہرہلے سانپ اور بچھو کے کاٹنے سے بھی کئی لوگ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔جب کبھی کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کو چارپائی پر کوہ سلیمان کے پھاڑوں کو پیدل پار کرکے شھر لایا جاتا ہے۔نہ تو یہاں کوئی سڑک کا نظام ہے اور نہ ہی کوئی امبولینس اور ھسپتال کا نظام ہے۔
کینسر جو کہ اب شدت اختیار کررہی ہے۔ اس کی وجہ یہاں سے یورینیم نکالنا ہے۔ کینسر کے کئی کیسز سامنے آئے ہیں اور آتے جارہے ہیں ھال ہی میں ایک نوجوان کینسر کی وجہ جان کی بازی ھار گیا۔لنڈ لوپ کوہ سلیمان رونگھن کا ایک علاقہ ہے جہاں تقریباً ہر دوسرے گھر میں کوئی نہ کوئی کینسر میں مبتلا ہے۔اس علاقے میں ایک پورا خاندان کینسر کہ وجہ سے ختم ہو گئی۔ ڈی جی خان میں ابی تک کینسر کا ھسپتال نہ بن سکا جب کہ یہ حکومت دیکھ رہی ہے کہ یہاں کینسر ھسپتال کی کتنی ضرورت ہے۔
کوہ سلیمان سے کئی وسائل نکالے جارہے ہیں جیسے تیل۔ کوئلہ۔ یورینیم ۔جپسم ۔کئی قیمتی پھتر وغیرہ لیکن ان کے بدلے یہاں کی عوام کو بنیادی سہولیات (تعلیم۔ پینے کا صاف پانی۔ھسپتال۔سڑکیں۔) نہیں دی گئیں۔
رونگھن کے علاقے بغل چر سے یورینیم نکالنے کے لیے کیمپ لگائی گئی ہے اور اس کیمپ میں کئی وطن وارث بھی کام کررہے ہیں۔وہ اپنے روزی روٹی کے لیے دور دور سے پیدل سفر کر کے آکر یہاں کام کرتے ہیں اور ان افسروں کے طانیں سنتے ہیں۔ہماری جگہ سے یورینیم نکالی جارہی ہے اور یہاں کے ہی وارثوں کو اس کے بدلے میں بیماریوں کے سوا کچھ نہ ملا۔
ایک مرتبہ یہاں کی ایک شخص سے بات کی تو اس نے بتایا کہ ہمارے گھرکےافراد جو کیمپ میں کام کرتے ہیں صبح صبح اٹھ کر 6 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے وہاں جاتے ہیں اور ہر رات کو دوبارہ واپس پیدل آتے ہیں۔ان کے لیے کوئی بھی ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں بنائی گئی۔کیمپ کی گاڑیاں ہر دن آتی جاتی رہتی ہیں لیکن وہاں کام کرنے والے لوگوں کے لیے کوئی سسٹم نہیں بنائی گئی جس کی وجہ سے ان کو کئی مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔وہاں ان کو کھانا کھانے کی اجازت نہیں اگر وہاں کھانا کھایا تو آپکی تنخواہ سے کاٹی جائیگیی اور تنخواہ ان کو 1000 یا 15000 سے زیادہ نہیں دی جاتی جبکہ یہ ساری یورینیم کے وارث وہیں لوگ ہیں اور انہی لوگوں کو آج اس طرح ملازم رکھا جا رہا ہے اور جن کو ملازم ہونا چاھیے تھا وہ افسر بن کے بیٹھے ہیں۔
دوسری جگہ یکھبئی سے بھی وسائل نکالے جارہیے ہیں اور حال ہی میں یہاں سے تیل نکالنے کے لیے کیمپ لگائی گئی تھی لیکن شاید اس وقت ان کو یہاں سے کچھ نہ ملا اور وہ کیمپ ختم کردیا گیا۔یہاں بھی سہولیات نہیں دی گئی جو کہ عوام کو ضرورت ہیں۔
اس کیمپ میں کام کرنے والے جب عید کی چھٹیوں پر اپنے گھر جا رہے تھے تو یکھبئی کے سڑکیں خراب ہونے کی وجہ سے ان کی گاڑی جس پر وہ سوار تھے پہاڑ سے گر گئی اور سارے لوگ اسی وقت جانبحق ہو گئے اور بد قسمتی سے سارے بلوچ اور بلوچستان کے وارث تھے جو اپنی ہی جگہ میں اپنی ہی وطن میں ملازم کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ان کی تعداد تقریباً 7تھی۔
حال ہی میں کوہ سلیمان میں سیلاب اور طوفانی بارشوں نے قیامت برپا کردی تھی۔اس مشکل وقت میں بھی ھکومت کے کسی نمائندے نے مدد تو دور کی بات سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بھی نہیں کیا۔
ہمارے بلوچ نوجوانوں نے خود اس کٹھن وقت میں اپنی عوام کی بھر پور مدد کی اور جتنا ان سے ہو سکا اپنے عوام کا ساتھ دیا۔اس وقت تقریباً 35 افراد طوفانی بارشوں کے زد میں آکر اپنی جان دے بیٹھ اور کئی زخمی ہوئے اور کئی جانی مالی نقصان کاسامنا کرنا پڑا۔کئی مال مویشی پانی بہا کر لے گئی جو ان کی واحد اثاثہ تھی۔ان بارشوں نے مکانوں کو بہت نقصاں پہنچایا اور تقریباً ساری مکانیں خاک ہوگئیں۔ان کی ضرورت کی اشیا بھی نہ رہی اور ان ھالات میں کئی دن لوگ بھوکے پیاسے اور آسمان کے نیچے رہے۔بعد میں بلوچ راج ۔بساک۔بلوچ یکجہتی کمیٹی۔اور دیگر بلوچی قومی تحریکوں نے ان علاقوں میں جا کر عوام کی مدد کی اور ان کو ضرورت کی اشیا فراہم کی۔
اس دوران بھی حکومت نے اپنی اوقات دکھا دی اور ایک متاثرہ علاقے میں کچھ راشن اور 10 12 ٹینٹس جاکر پھینک دیے تاکہ عوام ایک دوسرے سے لڑ پڑے اور بلوچ عوام میں ناتفاقی پیدا ہو جس سے اسی حکومت کو ہی فائدہ ہے۔لیکن قوم کے جوانوں نے ان کا یہ چال پورا نہ ہونے دیا اور جاکر اپنے عوام کو خود ٹینٹس راشن میڈیسن اور ضرورت کی اشیا پہنچا دی۔
یہاں کے لوگوں کا پیشہ اکثر مال مویشی اور زراعت پر منحصر ہے اور ان پر ہی گزارا کررہے ہیں۔اپنے بچوں کو شہر پڑھانے کے لیے وہ اپنے مال مویشی بیچتے ہیں کہ ہمارے بچے شہر جا کر تعلیم حاصل کرسکیں اور شہر میں گورنمنٹ سکول اور کالجز بی کوئی اچھی تعلیم نہیں دیتے۔پرائویٹ سکولز اور کالجز کا فیس ہم نہیں دے سکتے اور اب تو گورنمٹ فیس بھی بہت ذیادہ ہوتا جارہا ہے۔
جبکہ اپر پنجاب کو دیکھیں تو وہاں بنیادی سہولیات تو ہیں ہی اوپر سے اور بھی کئی سہولیات دی گئی ہیں لیکن یہاں ان علاقوں میں حکومت ابھی تک بنیادی سہولیات بھی نہ دے سکی۔
ان دونوں جگہوں میں فرق کرنے کی وجہ؟ کیوں اگر تم کہتے ہو کی ڈیرہ جات پنجاب کے علاقے ہیں تو یہاں وہ بنیادی سہولیات کیوں میسر نہیں جو انسان کی ضرورت ہیں کیوں یہاں ویسی ترقی نہیں جیسی تمہارے لاہور اسلام آباد میں ہے؟ اگر ان علاقہ جات کو پنجاب سمھجتے ہو تو یہاں بلوچستان جیسا سلوک کیوں؟
تمہارے ہر عمل سے تمہاری ہم سے نفرت ظاہر ہوتی ہے۔ہر عمل ہمیں یہی علم دیتی ہے کہ تم ان علاقوں کو ابھی بھی بلوچستان کا حصہ سمجھتے ہو ۔اوریہ واضح کرنے کی کوشش کررہے ہو کہ تم اس پر قابض ہو۔اور ہر طرح سے اپنے قابضیت کی فرض نبھا رہے ہو۔ہر طرح سے خود کی سچائی دکھا رہے ہو۔
حکومت کی چالاکی تو دیکھیں یہاں کے لوگوں کو اتنا مذہب پرست کردیا ہے کہ اب جو ظلم بھی کرے ان پر وہ لوگ خدا کی طرف سے عزاب سمجھ کر چپ ہو جاتے ہیں اور سجدے کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے ہی کوئی گناہ کی ہوگی جس کی سزا ہمیں مل رہی ہے۔یا پھر اپنی قسمت کو کوسنے لگتے ہیں کہ ہماری قسمت میں ہی یہی تھی۔
کیوں اس بات کو سمھجنے میں اتنا وقت لگ رہا ہے کہ قسمت میں تمہاری یہ نہیں لکھی تھی خدا نے وہ تو زمین پر بیٹھے خداوں نے تمہاری قسمت بدل دی۔
کوہ سلیمان کے حالات پر لکھنے بیٹھ جاوں تو شاید کتابیں ہی چھپوانی پڑ جائیں۔ 1950 سے لے کر آج تک پنجاب نے کوہ سلیمان اور ڈیرہ جات کے لیے کوئی بھی کام نہیں کیا۔ نہ تو یہاں سہولیات دے سکا اور نہ ہی اس بات کو مان سکا کہ یہ بلوچستان ہے۔ 70 سال سے زیادہ ہوگئے اور پنجاب کا کہنا تھا کہ یہ علاقے پنجاب میں رہ کر ترقی کرینگے تو کہاں ہے ترقی؟ ان علاقوں میں عوام کو تو ابھی علم اور بنیادی سہولیات ہی نہیں مل پائیں تو ترقی کہاں سے ہورہی ہے ان علاقوں میں؟
اس میں کوئی حیرانی یا پریشانی کی بات نہیں کہ ہمارے ساتھ یہ رویہ کیوں۔ہم بخوبی جان چکے ہیں کہ اس ریاست کا ہم سے کیا مسلہ ہے اور ہمارےعلاقوں میں کیوں یہ سہولیات نہ دے سکی۔
افسوس اس بات کا نہیں کہ ہم پر قبضہ ہے اور ہمیں یہاں کوئی سہولیات نہیں دی جارہی افسوس اس بات کا ہے کہ ہمیں ہماری غلامی کا ابھی تک احساس نہیں ہوا ابھی تک ہم اپنا سر جھکائے ان کی بادشاہی تسلیم کررہے ہیں۔ابھی تک اپنے لیے آواز اٹھانے سے ڈرتے ہیں۔ابھی بھی خاموش بیٹھے ہیں کہ سب کچھ خود ٹھیک ہو جائیگا۔جب تک تم خود کچھ نہیں کروگے اپنے لیے تو کچھ ٹھیک نہیں ہوگی۔ اور یہ بات سمجھنی ھوگی اب بلوچ قوم کو کہ اس ریاست سےہمارا کیا تعلق ہے اور کس طرح اس تعلق کو نبھانا ہے ور اس ریاست سے کس طرح نمٹنا ہے۔کس طرح اس سے اپنے حقوق اور اپنی گلزمین کی حفاظت کرنی ہے۔کس طرح اپنی وطن کی دفاع کرنی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں