جبری لاپتہ شخص کے لواحقین آکر کیس لڑیں – وی بی ایم پی

240

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4781 ویں دن جاری رہا۔

کراچی ملیر سے سماجی کارکنان بابل بلوچ اور شیھک اور دیگر نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا جبکہ اس موقع پر تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ بھی موجود تھے ۔

آج مزید لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے کوائف کے مطابق وی بی ایم پی کا پرفارمہ بھرے گئے، جنکے کیسز لاپتہ افراد کیلئے قائم کمیشن اور متعلقہ انسانی حقوق کے اداروں تک وی بی ایم پی کی توسط سے جمع کیے جائیں گے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری کردہ ایک ریڈ بک میں متعدد جبری لاپتہ افراد کے نام مفرور لوگوں کے بطور شامل ہیں جو کہ پہلے سے ہی جبری طور پر لاپتہ کیے گئے ہیں اور وہ پہلے سے ہی ریاستی غیر قانونی حراست میں بند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم بارہا ان کے لواحقین کو کہتے آرہے ہیں کہ وہ وی بی ایم پی کیمپ آ کر اپنے پیاروں کیلئے آواز اٹھائیں کیسز کا اندراج کریں تاکہ کل کو انہیں بھی جعلی مقابلوں میں نا مارا جائے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ ریاستی قتل کے طریقہ واردات بدلتے رہتے ہیں لیکن قاتل کا سراغ ایک ہی جگہ سے ملتا ہے۔ریاست اپنے اداروں کو بری الذمہ اور شفاف ثابت کرنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتا ہے، لیکن ریاست کے تمام ادارے بلوچ نسل کشی میں برابر کے شریک جرم ہیں۔پاکستانی وزیراعظم کے اس بیان پہ کہ قانون نافذ کرنے والے کچھ خاص ادارے ٹارگٹڈ کارروائی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ بلوچستان میں ایسے کو خاص کارروائی ہوتی ہے بلکہ بلوچستان میں جبر کرنے میں ریاست کا کوئی ایک ادارہ نہیں اس کا پورا ریاستی نظام ملوث ہے، جبکہ ان مظالم پہ اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی خاموشی اس جبر کو مزید تقویت دیتی ہے –

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق 10 جولائی 2021 کو کچلاک سے لاپتہ عبداللہ خان ولد حبیب اللہ سیلمان خیل بازیاب ہوگئے۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے رواں سال 22 اگست کو عبداللہ سمیت دیگر چار لاپتہ افراد کے کیسز صوبائی حکومت کو فراہم کیے تھے۔