بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کے زیراہتمام ہفتے کے روز تربت میں سانحہ نشتر ہسپتال ملتان اور سی ٹی ڈی کے ہاتھوں زیر حراست افراد کی جعلی مقابلوں میں قتل اور بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق اس سلسلے میں عطا شاد ڈگری کالج سے ریلی نکالی گئی جس میں شامل مرد و خواتین شرکا نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویریں اور پلے کارڈ اٹھا کر بلوچ نسل کشی کے خلاف نعرہ بازی کی۔
مظاہرین نے ملتان میں نشتر ہسپتال سے ملنے والی لاشوں کو لاپتہ افراد کی نعش کہتے ہوئے ان کے ڈی این اے اور اس کے لیے آزادانہ تحقیقاتی کمیشن بناکر اصل حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔
اس موقع پر ایچ آر سی پی اسپیشل ٹاسک فورس تربت کے ریجنل کوارڈی نیٹر پروفیسر غنی پرواز، تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست، لاپتہ اسکول ٹیچر رفیق اومان کی بیٹی سمیت دیگر نے خطاب کیا۔
مقررین نے کہاکہ نشتر اسپتال سے ملنے والی لاشیں بلوچ لاپتہ افراد کی ہوسکتی ہیں اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ ان لاشوں کے ڈی این اے کرائے جائیں تاکہ حقائق سامنے آسکیں۔
انہوں نے کہاکہ ملتان سے منظر عام پر آئی ہوئی لاشوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے قربانی کے جانور اس طرح ذبح نہیں کئے جاتے لیکن ہمارے بچوں کو بے دردی سے قتل کرکے لاشیں سرعام پھینک دی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ مقتدر قوتوں کے لیے بلوچ وسائل کی لوٹ مار کافی نہیں اس لیے اب بلوچ لاشوں کے اعضاء نکال کر فروخت کیے جارہے ہیں جو ایک سنگین جرم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر خاموش ہیں، اقوام متحدہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ خاموشی سے ہمارے وسائل کی لوٹ مار جاری ہے، ہماری زبان و ثقافت چھین لئے گئے ہیں، 15 سال قبل تربت میں اسی گلی کے اندر غلام محمد، لالا منیر اور شیرجان کو لاپتہ کرکے ان کی مسخ لاشیں دی گئیں، اگر اس دن بلوچ سڑکوں پر نکلتے اور اس زیادتی کے خلاف منظم ہوکر احتجاج کرتے تو شاید یہ نوبت نہیں آتی اس وقت کیچ کے 9 لاکھ آبادی میں 900 افراد بھی باہر نہیں نکلے جو افسوس کا مقام ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلوچ نوجوانوں کو کریمہ شہید کی سوچ لے کر جبر اور ظلم کے خلاف سینہ سپر ہوکر باہر نکلنا اور اپنے حق کے لیے آواز اٹھانا چاہیے۔