تابش وسیم کی شاعری جُرم بن گیا

630

تابش وسیم کی شاعری جُرم بن گیا

تحریر: وش دل زہری

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی تاریخ میں ہمیشہ سامراج کا سامنا ان مکاتبِ فکر کے لوگوں سے ہوا ہے جو علم سے نیاز رکھتے تھے، یورپ میں جب پہلی دفعہ علم ٹیکسٹ کی شکل میں پبلش ہوا تو کتاب کے لکھاری کا نام ظاہر نہیں کیا گیا کیونکہ وہ دور ایسا دور تھا جب علم سے حاکموں کو خطرہ رہتا تھا اور وہ ہر اُس ذریعے کو مٹانے کی کوشش میں رہتے جو علم کو عوام تک لانے کا ذریعہ تھے اور پھر سزا اُس پبلیشر کو دی گئی جس نے وہ پہلی کتاب چھاپی تھی۔

وہ دور صرف حاکموں اور چند محدود طبقوں کیلئے علم لازمی ہے کا دور تھا اور یہی اشرافیہ اپنے بچوں کیلئے اتالیق کا انتظام کیا کرتے تھے عام عوام کو علم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں تھا، اور جب یہی علم عام آدمی تک پہنچنے لگا تو سامراجی قوتوں کو خطرہ محسوس ہوئی اور انہوں نے علم دشمنی کے خلاف بڑا منصوبہ تیار کردیا لیکن عوام پیچھے نہیں ہٹے اور اُس دور کے تمام سامراجی قوتوں کو چیلنج کردیا آج اُن کے بدولت علم ہر عام انسان تک پہنچ چکا ہے.

ہلاکو خان دنیا کے اندر بہت بڑا ظالم حاکم گزرا ہے تاریخ ایسے ہزاروں حقیقی قصوں سے بھری پڑی ہیکہ بادشاہوں نے اپنے خواہشات اور مقاصد کی خاطر کس قدر انسانی تاریخ کو لہو لہان کردیا ہے ہلاکو خان بھی ان میں سے ایک گزرا ہے جو ظلم و جبر کے ساتھ علم دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑا ہوا تھا، اُس کے دور بادشاہی میں جب مدارس، تعلیمی اداریں، لائبریریاں اور تمام تدریس گاہوں کو جلادیا گیا تو بڑے بڑے دانشور اور عالم اپنے چھوٹے بچوں کو ہلاکو خان کے سامنے لاکر اُنہیں بولتے کہ جو علم حاصل کیا ہے اُسے ہلاکو خان کے سامنے پڑھ کر سنائیں، جب اُن بچوں نے علمی دور کا سیمینار بنایا تو ہلاکو خان حیران رہ گی اور اساتذہ و دانشوروں ہلاکو خان سے مخاطب ہوکر کہنے لگیں تم کتابیں لائبریوں اور درس گاہوں کو جلاکر ختم کرسکوگے مگر ہمارے سینوں میں موجود ان کتابوں کو کیسے جلاؤگے؟ اور ہلاکو خان وہیں سے شکست محسوس کرکے واپس ہو جاتا ہے.

یہ علم دشمنی کا دور نہیں ہے لیکن پاکستان میں ہلاکوئیت موجود ضرور ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیکہ پاکستان کے خفیہ ادارے اور فوجی اداروں نے بلوچستان میں ہمیشہ کتاب جلانے کا دور بنایا ہے، بلوچستان کے مختلف تعلیمی اداروں پر چھاپہ مارکر کتابیں ضبط کرنا اور کتابیں جلانا شاید معمول بن گیا ہے، حال ہی میں شال کے بڑے جامعہ میں کتاب اسٹال لگانے سے ریاستی اداروں نے بلوچ نوجوانوں کو روکنے کیلئے بھاری نفری بلایا تھا اور احتجاجاً بلوچ اسٹوڈنٹس نے کتابیں روڈ پر رکھ کر احتجاج ریکارڈ کروایا تھا، علم دشمنی کا یہ دور ہلاکوئیت کا یاد دلاتا ہے لیکن علم کا چراغ آج بھی فروزاں ہے جبکہ ہلاکو سمیت تمام علم دشمن حاکم اپنے بادشاہت کے ساتھ ہمیشہ کیلئے بجھ گئیں.

انسانی تاریخ میں کچھ ایسے بھی دور گزرے جہاں حاکموں نے دانشور اور شاعروں کو قتل کرنے کا باقاعدہ منصوبہ بنایا بلکہ قوانین بنائیں سزائیں منتخب کی گئیں کیونکہ اُن کو سب سے زیادہ خطرہ ان سے محسوس ہوتا تھا، اکثر ڈکٹیٹر اور ظالم بادشاہوں کے اقوال بھی ظاہر کرتے رہے ہیں کہ کسی قوم پر اگر راج کرنی ہے تو اُن کا لکھا پڑھا طبقہ ختم کردو جن میں دانشور اور شاعر اہم ہوتے تھے، یونان کے تاریخ میں علم کی سچائی کو چھپانے پر سمجھوتہ نہ کرکے ایک عظیم ہستی اور نام ور فلاسفر زہر کا پیالہ پیکر ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا وہ ہستی سقراط کے نام سے چوبیس سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی زندہ ہے جبکہ یونان کے وہ ظالم حاکمیت خاک میں مل کر ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئیں.

موجودہ صدی کی بات ہے غیرفطری ریاست پاکستان کے بنانے والوں کے ہاتھوں بہت سے دانشور، شاعر، لکھاری، زانت کار، مصور، ماہرِ قانون اور علم رکھنے والے ہستیوں کو ظلم کے میدانوں میں گھسیٹا گیا روزانہ اُن کی تذلیل کی گئی ان کو جینے کے حق سے محروم کردیا گیا اور آج بھی یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، شاعر حبیب جالب، سعادت حسن منٹو سمیت کئی ایسے علم رکھنے والے لوگ اپنے ہی قوم کے ہاتھوں زندگی کے آخری ایام میں خون تھوکتے تھوکتے قبر میں چلے گئے اور اُن کی قبر پر لگی تختیوں پر لکھی الفاظ اس ریاست کے حقیقی چہرے کو ظاہر کرتے ہیں کہ اس کی بنیاد ہی علم دشمنی پر رکھا گیا ہے۔

تابش وسیم بلوچ اپنے مادری زبان میں شعر لکھنے والا ایک طالب علم تھا وہ بھی اسی تسلسل کا شکار ہوا، ریاست کو تابش وسیم کے الفاظ سے خطرہ محسوس ہوا تھا، میں اکثر سنتا آیا ہوں کہ بندوق قلم کے آگے اپنی اہمیت کھو دیتی ہے آج تابش کے الفاظ نے یہ ثابت کردیا کہ قلم ہمیشہ اُس ہتھیار کو شکست پر مجبور کردیتا ہے جس کی بیرل ہمیشہ علم کو اپنا نشانہ بنایا ہے، تابش سے ریاست کو شاید وہی خطرہ تھا جس طرح ایتھنز کے اہلِ اقتدار کو سُقراط کی دانشمندی سے تھا اور پاکستان کو حبیب جالب کے شاعری سے.

تابش وسیم کی چند ماں بولی زبان میں لکھی شعر دنیا کے ایٹمی طاقتوں کی فہرست میں موجود اس ریاست کو شاید چیلنج اور خطرہ محسوس ہوئے کہ تابش کو ڈیڈھ سال سے زیادہ گمنام زندانوں میں ڈالنے کے بعد بڑے بےدردی اور وحشیانہ انداز میں شہید کرکے لاش کی شکل میں پھینک دیا گیا، تابش وسیم کے شاعری میں شاید وہ اثر تھا جو ریاست کی عقوبت خانوں میں سالوں سے قید و بند اسیران کیلئے روشنی مہیا کرتے تھے، شاید تابش کی وہ الفاظ راشد، ذاکر، زاہد، شبیر اور دین محمد سمیت تمام لاپتہ بلوچ افراد کی مقصد کو اُجاکر کرتے جس سے ریاست کو خطرہ محسوس ہوتا تھا، تابش وسیم کے الفاظ نہ ایٹم بم تھے اور نہ کوئی کیمیائی ہتھیار لیکن ریاست کو یہ الفاظ ضرور چھبتے تھے، تابش وسیم کی شاعری آج بھی ہر اُس قوت کے سامنے مزاحمت کی شکل اختیار کرچکی ہے جنہوں نے تابش وسیم کو گمنام کال کوٹھڑیوں میں پھینکا تھا آج بلوچستان کے گلی گلی کوچہ کوچہ تابش وسیم کی سنہری الفاظ کی شاید یہ طاقت ہے کہ بلوچ قوم ریاست کو آنکھیں دکھا کر کہتے ہیں کہ”لاوارث لاشیں نہیں ریاستی نظام ہے” آج تابش وسیم کی وہ چند شاعری بلوچ قوم سمیت ہر اُس انسان دوست شخص کے زہن میں دوڑ رہے ہیں جنہوں نے تابش وسیم کی لہو سے لت پت لاش کو دیکھا ہے یا جن کے سامنے تابش وسیم کی لاش کی تصویر گزری ہے.

تابش وسیم امر ہے ہر دور میں زندہ ہے اپنے حسین اور خوبصورت شعروں کے ساتھ لیکن ریاست ہر دور میں اور ہر تاریخ میں ہمیشہ رسوا ہے اور رسوا رہےگا، تابش وسیم کی بہتے لہو نے، شاعری نے اور سیاسی سرگرمیوں نے ریاست کا وہ چہرہ سب کے سامنے لایا ہے جو وحشی ہے، خوفناک ہے، بدتہذیب اور مکار ہے جس کے منہ پر مظلوموں کے لہو کی چھینٹے ہیں جس کے آنکھوں میں ظلم کی وہ خوفناک آگ بھڑک رہی ہے جس میں سالوں سے ہزاروں بےگناہ جلھس رہے ہیں، تابش وسیم کو شہید کرکے ریاست نے بلوچ قوم کے نفرت کی آگ پر تیل چھڑکانے کا کام سرانجام دیا ہے.

باقی اس ریاست سے اور اس کے حامی عوام سے بلوچ قوم ایسی امید بالکل نہیں رکھےگی کہ تابش وسیم کے الفاظ کی اہمیت یہ سمجھینگے یا ان پر آکر اپنا وہ رائے دینگے جس سے علم و آگاہی کے پیروکاروں کو حوصلہ ملے یہ وہ ریاست اور وہ قوم ہے جنہوں نے حبیب جالب کو سرِ بازار گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتا رہا دنیا جہاں کے آگے اُس کی تذلیل کی گئی، ایسے ریاست اور اُس کے عوام سے بلوچ قوم بالکل یہ امید نہیں کرسکتا جنہوں نے سعادت حسن منٹو جیسے دانشور کو اس حدتک لاکھڑا کردیا کہ وہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ وہ پاکستانی ہے یا ہندوستانی یا پھر ٹوبہ ٹیگ سنگھ کا وہ پاگل جس کو ریاستی پاگل خانہ بھی ایک شہری کی حیثیت سے نصیب نہیں ہوا، بلوچ قوم اب خوب جانتی ہے کہ تابش وسیم کے شعر و شاعری یا اُس کے سیاسی سرگرمیوں کی اہمیت کیا ہے اور یہ ریاست کیلئے کیوں خطرہ تھے اور کیوں اس سے ریاست خوفزدہ تھا.

آخر میں تابش وسیم کا ایک شعر ضرور شامل کرونگا..

اُست ئنا کَھوکو اسہ ارمان ئسے اُس
زند نی زند ئٹ اسہ زندان ئسے اُس

چَٹپہ نی زی آ کنا دا وڑ پِتا تے
دلرُبا ٹھپّا تِیکن درمان ئَسے اُس

اف سما انجام ئنا سڑدار نے نا
مِش مروسک انت مس گر خان ئسے اُس

پِرغ زمزیرے غُلامی نا تفوکا
بَش مرَک ورنا وطن کن شان ئسے اُس

ہر خوشی ئے نا پِنا تینا کرینُٹ
تیسہ غم انت ءِ کَنے نادان ئسے اُس

جئوز ئسے نا اُست ئٹی تابِش امہ رو
مَش تلارا تا مگے دامان ئَسے اُس؟

(تابش بلوچ)


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں