پیر کے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار کے مرکزی چیئرمین زبیر بلوچ نے صوبائی صدر بابل ملک بلوچ، مرکزی جوائنٹ سیکرٹری وکرم بلوچ، اراکین سینٹرل کمیٹی کے ممبر جعفر بلوچ،آغا سلمان شاہ، نوید تاج بلوچ، زونل صدر منصور بلوچ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے یونیورسٹیوں میں سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں و تقرریاں تشویش ناک ہیں جن کے سبب تعلیمی سرگرمیاں بری طرح متاثر ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تربت یونیورسٹی بلوچستان کا دوسرا بڑا پبلک سیکٹر یونیورسٹی ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر زیادہ نمایاں ہے۔
“یونیورسٹی آف تربت میں موجودہ صوبائی حکومت کے قیام کے بعد سیاسی مداخلت کا آغاز کیا گیا اور صوبائی کابینہ کے ایک اہم صوبائی وزیر کی مداخلت کی وجہ سے تعلیمی ماحول میں خلل پیدا ہوا اور انتظامی بحران نے جنم لیا۔ میرٹ کے برخلاف یونیورسٹی میں موجود سنیئر پروفیسرز کو نظر انداز کر کے بلوچستان یونیورسٹی کے ایک جونیئر اسسٹنٹ پروفیسر کو میرٹ اور ہائر ایجوکیشن کے رولز و ریگولیشن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اور سریچ کمیٹی کے سفارشات اور تشہیر کے بغیر یونیورسٹی آف تربت میں پرو وائس چانسلر کی اہم تعیناتی عمل میں لائی گئی جس سے سنیئر پروفیسرز کی نہ صرف حق تلفی ہوئی اور یونیورسٹی آف تربت کو عملاً نئی مشکل میں ڈال دیا گیا۔ متاثرہ سنیر پروفیسروں اس غیر قانونی تقرری کے خلاف ہائی کورٹ میں بھی گئے ہیں اور یہ کیس بلوچستان آئی کورٹ میں کیس زیر التوا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اس وقت یونیورسٹی آف تربت میں رجسٹرار، کنٹرولر امتحانات، ڈاریکٹر فنانس، لاء فیکلٹی کے ڈین جیسے اہم ترین آفیسز ایکٹنگ چارچ پر جونیئر آفیسرز چلا رہے ہیں۔ ہمارا ہائر ایجوکیشن کمیشن اور متعلقہ اداروں سے مطالبہ ہے کہ یونیورسٹی اف تربت کے اہم تریں اداروں کی پوسٹوں کی باقاعدہ تشہیر کریں اور میرٹ کی بنیاد پر تعیناتیوں کو یقینی بنائیں۔
طلباء رہنماؤں نے کہا کہ یونیورسٹی کو چلانے میں ان آفیسوں کا اہم کردار و رول ہوتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے رجسٹرار جیسے اہم ادارے کو ایڈھاک کی بنیاد پر ایک جونیئر افیسر کے ذریعے سیاسی دباو کی بنیاد پر چلا رہا ہے۔ جس سے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ضابطوں اور قانون کے برخلاف ہورہا ہے جبکہ قانونا 6 ماہ سے زیادہ کسی بھی اہم پوسٹ پر عارضی طور پر نہیں رکھا جاسکتا ہے۔
پرو وائس چانسلر اور رجسٹرار چونکہ حکومتی سابقہ وزیر کے چہتے ہیں تو انھوں نے حکومت سپورٹ سے عملاً یونیورسٹی ایڈمنسٹریشن کو یرغمال کردیا ہے اور وائس چانسلر اس سرکاری لابی کے سامنے بے دست و پا ہیں عملا تمام اختیارات انھیں کے پاس ہیں جو یونیورسٹی کے ہر سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ اس وقت یونیورسٹی آف تربت میں ڈیولپمینٹ فیز 2 پر کام ہورہا ہے مجموعی طور پر ایک ارب پچاس کروڑ کی مختلف اسکیمات پر کام شروع کردی گئی ہے۔ فیز ٹو پروجیکٹ کی نگرانی وزیر مصووف کے پریشر کی وجہ سے کام کی نگرانی پرو وائس چانسلر کو دی گئ ہے جس نے تمام ٹھیکے اپنے من پسند افراد میں تقسیم کئے ہیں اور خود اور وزیر مصوف سائیلنٹ پارٹنر بن گے ہیں جس میں خلاف ضابطہ یعض کنٹریکٹرز کو اڈوانس پیمنٹ بھی کردیا گیا ہے جس میں فیزان اسٹیل اینڈ سیمنٹ کمپنی کو 20 کروڈ ایڈوانس کیا گیا ہے۔ پرو وائس چانسلر کی ترقیاتی کاموں کا نگران ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔ پرو وائس چانسلر نے بلیک لسٹ کمپنی جس کو ضلعی انتظامیہ نے بلیک لسٹ کیا تھا اس کو بھی 40 کروڈ کا کنٹریکٹ دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کرپشن اور غیر قانونی اقدامات کے خلاف ایک آفیسر کو آواز اٹھانے پر ٹرانسفر کردیا گیا جس نے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف کورٹ سے رجوع کیا جسے کورٹ نے دوبارہ اپنے پوسٹ پر بحال کر دیا۔
حال ہی میں یونیورسٹی آف تربت کے چہتے پرو وی سی نے 10 افراد کو بغیر اشتہار ملازمتوں پر بھرتی کیا۔جن میں 4 ڈرائیور، 2 باورچی، 2 ہلپر، 2 ناہب قاصد ہیں ان تمام ملازمین کا تعلق برائے راست موصوف کے خاندان سے ہے اور ان تمام افراد کو اپنے زاتی کام میں لگا دیا گیا ہے جو ایک سن بھی یونیورسٹی نہیں آئے ہیں۔ امپورٹڈ پرو وی سی اور رجسٹرار کی اولین ترجیح کرپشن اور اقرباپروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی ایس او پجار نے اپنے قومی ادارے کو بچانے کے لیے جدوجہد کی ہے اور ہمیشہ کرتا رہے گا۔ جب بی ایس او پجار نے غیر قانونی تعیناتی کے خلاف آواز بلند کی تو بی ایس او پجار کے مرکزی کمیٹی کے رکن نوید تاج کو انتقامی کاروائی کا نشانہ بنا کر اس کا فائنل رزلٹ غیر قانونی طور پر روک کر تنظیمی و سیاسی سرگرمیوں سے دستبردار ہونے کو کہا گیا لیکن ہمارے دوست اپنے قومی ادارے کو بچانے کے ذمہ داری سے کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے،یونیورسٹی آف تربت کے ہاسٹل کے طلباء اور طالبات کے بنیادی مسائل پر دو ماہ قبل پرو وائس چانسلر کو ایک تحریر درخواست دی گئ لیکن پرو وائس چانسلر صاحب نے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ہاسٹل کے جنریٹر کو اٹھاکر اپنے زاتی استعمال کے لے اپنے گھر منتقل کردیا۔
زبیر بلوچ نے کہا کہ پرو وائس چانسلر کے کرپشن اور اقرباپروری کے قصے بڑے ہیں انھوں نے اپنے ذاتی استعمال کے لیے ایک کروڈ 20 لاکھ کی گاڑی خریدی اور اپنے نئے گھر کی رینوویش پر 60 لاکھ خرچہ کیا۔ طلباء کے لیے چلنے والے بسوں میں ٹائیر نہیں، پانی کے لیے واٹر کولر نہیں اور طلبا کے بسوں کے لیے تیل نہیں لیکن موصوف پرو وی سی شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں۔
پرو وی سی اور رجسٹرار کی غیر قانونی تعیناتی کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور ہائر ایجوکیشن کمیشن اور چانسلر سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ 15 دن کے اندر وائس چانسلر اور رجسٹرار کے پوسٹ کو تشہیر کریں۔ آئیر ایجوکیشن اور گورنر بلوچستان تربت یونیورسٹی کے پرو وی سی کو فوری طور پر واپس بلوچستان یونیورسٹی میں حاضر ہونے کے لیے احکامات جاری کریں اور دیگر پوسٹوں کے لیے سنیر پروفیسروں کی شارٹ لسٹینگ کر کے میرٹ کی بنیاد پر تعیناتیوں کو یقینی بنائیں۔
بصورت دیگر 15 دن کے بعد بلوچستان بر میں تحریک چلائیں گے ۔