بلوچستان کی لڑکیاں لاپتہ افراد کے کیمپس میں بیٹھے ہیں۔ کوئٹہ سیمینار

492

بلوچ وومن فورم کی جانب سے  گرلز انٹر نیشنل ڈے کی مناسبت سے کوئٹہ پریس کلب میں تقریب کا انعقاد کیا گیا۔

پروگرام کے مہمان خاص نورین لہڑی، صابرہ اسلام، رخسانہ بلوچ، بی این پی کے رہنماء شمائلہ اسمائیل، ہارڈ بلوچستان سے زیا بلوچ، بانک مہلب نصیر، بساک کی سی سی ممبر ڈاکٹر سمیعہ بلوچ، وی بی ایم پی کے نصرالله بلوچ اور  ایڈوکیٹ حسن مینگل نے خواتین کے مختلف مسائل کے حوالے سے اپنے خیالات پیش کیے۔

بلوچ وومن فورم کی آئرگنائزیر زین گل بلوچ نے کہا کہ خواتین معاشرے کے نصف حصے پر مشتمل ہیں مگر انکی ذہنی صلاحیتیں فرسودہ روایات اور مذہبی انتہا پسندی  کی نظر ہو رہی ہیں ۔

انہوں نے بلوچستان کی سیاست کا ذکر کرتے ہوے کہا بلوچ قوم کو اپنی سیاست ذاتی مفاد سے نکال کر قومی ترقی کے لئے وقف کرنے کی ضرورت ہے ۔شخصیت پرستی کی سیاست سے نکل کر سیاست کو قومی حوالے سے منظم اور میرٹ پر لانے کی ضرورت ہے تاکہ لیڈرشپ درست ہاتھوں میں منتقل ہوسکے۔

پروگرام میں بچیوں نے تعلیم کی اہمیت پر ٹیبلو پیش کیئے اور امبر بلوچ کا موٹیویشنل انٹرویو بھی دکھایا گیا جو دشت بلنگور سے تعلق رکھتی ہیں۔

مہلب نصیر کا ویڈیو پیغام بھی نشر کیا گیا جس میں انہوں نے بلوچ لڑکیوں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوے کہا کہ والدین کو بچوں کو سننا چاہیے تاکہ وہ خودکشی کی طرف نہ جاسکیں۔

انہوں نے لڑکیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ انہیں خوش ہونا چاہیے کہ انکے لیے ایک خوبصورت دن مقرر کیا گیا ہے۔

پروگرام میں زیا بلوچ نے چائلڈ پروٹیکشن کے حوالے سے کہا کہ ہمارے بچے لاپتہ افراد کے کیمپس میں بیٹھے ہیں انکا مستقبل ہم کیا دیکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا چائلڈ میرج پر بدقسمتی سے ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں ہو پائی ہے۔

صابرہ اسلام نے کہا کہ بلوچ معاشرے میں ہراسمنٹ کا تصور کبھی نہیں رہا ہے یہاں محبت کی داستانیں ہیں لیکن ظلم و جبر اور زیادتی بلوچ سماج میں اس طرح کبھی نہیں رہا ہے  مگر اب تعلیمی اداروں اور دفاتر میں ہراسگی کے واقعات کو کارپٹ کے نیچے چھپایا جارہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ قدم قدم پر ہماری بچیوں کو ہراسگی کے واقعات پیش آرہے ہیں ۔

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی سی سی ممبر ڈاکٹر سمیعہ نے کہا بلوچستان میں Retained placenta کی وجہ سے خواتین اموات کا شکار ہو رہی ہیں اکیسویں صدی میں ہماری خواتین  معمولی سی علاج سے بھی محروم ہیں جو صرف پانچ منٹ میں ایک انجکشن سے حل ہوجاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا چاغی راسکو خاران ان علاقوں میں 1998 نیوکلیر ٹیسٹ کے بعد الٹرا وایلیٹ ریڈی ایشنز کی وجہ سے نہ صرف عورتیں بلکہ مرد بھی کینسر اور مہلک بیماریوں کا شکار ہیں۔

رخسانہ بلوچ  نے کہا خواتین ابھی تک اپنی پہچان انفرادی طور پر بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں ۔ وہ اپنے بھائی والد یا قبیلے کے نام سے خود کو متعارف کرواتی ہے۔ عورت کو سوچھنا ہوگا کہ اگر انہیں بلوچ سماج کی ترقی کے لیے کردار ادا کرنا ہے تو انہیں اپنے زات سمیت اپنے فیلڈ میں بھی اپنا مقام بنانا ہوگا ۔

نصراللہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سینکڑوں خاندانوں کے سربراہ جبری گمشدہ کر دیے گئے ہیں جس سے بلوچ بچیاں تعلیمی حق سے محروم ہیں ۔

پروگرام میں ایڈوکیٹ حسن مینگل نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے خواتین کی جدوجہد کو سراہا ۔

بی این پی رہنماء شمایلہ اسماعیل صاحبہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی تعداد پارلیمنٹ میں بہت کم ہے قانون سازی میں بھی خواتین کا کوئی کردار نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ خواتین کا کوٹہ بڑھایا جائے اور برابری کے لیے قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے۔

پروگرام کے مہمان خاص بانک نورین لہڑی نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ تعلیم اور دیگر شعبے میں ترقی ہو رہی ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے، کوئٹہ بلوچستان کا دارلخلافہ ہے لیکن یہاں بھی تعلیم اور صحت کے مسائل ہیں

انہوں نے کہا کہ ہمارا تعلیمی نظام پولیٹیسائز ہوچکاہے، دنیا میں سب سے کم خواندگی تناسب بلوچستان میں لڑکیوں کی تعلیم کا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 اے میں چھ سال سے 18 سال کے بچے کی تعلیم کی ریاست کی ذمہ داری ہے مگر بدقسمتی وہ اپنی ذمہ داری پورا کرنے سے قاصر ہے ۔