تہران کی بدنام زمانہ اوین جیل میں ہفتے کی رات قیدیوں اور سکیورٹی اہلکاروں کے مابین جھڑپیں ہوئیں اور عمارت سے آگ کے شعلےنکلتے دکھائی دیے، تاہم ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ صورت حال ’کنٹرول‘ میں ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شمالی تہران میں واقع اوین جیل سیاسی قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کی وجہ سے بدنام ہے۔اس جیل میں غیر ملکی قیدیوں کو بھی رکھا جاتا ہے۔ گذشتہ ماہ مہسا امینی کی موت کے بعد مظاہروں کے دوران حراست میں لیےگئے سینکڑوں افراد کو بھی مبینہ طور پر اسی جیل میں رکھا گیا تھا۔
رپورٹس کے مطابق ہفتے کی رات جیل سے آگ کے شعلے اور دھوئیں کے بادل بلند ہوتے دیکھے گئے۔ اوسلو میں قائم انسانی حقوق کیتنظیم ایران ہیومن رائٹس کی جانب سے ٹوئٹر پر شیئر کی گئی ویڈیو فوٹیج میں گولیاں چلنے کی آواز سنی جا سکتی ہے۔
پولیس کی طرف سے قانون کی خلاف ورزی اور احتجاج پر نظر رکھنے والے سوشل میڈیا چینل ’1500 تصویر‘ نے ٹوئٹر پر کہا کہ’اوین جیل میں آگ پھیل رہی ہے اور دھماکے کی آواز سنی گئی۔‘
سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیوز میں ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے سنے جا سکتا ہے جو مہسا امینی کی موت کے بعد ایک ماہ سےجاری احتجاجی تحریک کے بڑے نعروں میں سے ایک ہے۔
22 سالہ امینی 16 ستمبر کو ایران کی اخلاقی پولیس کی جانب سے خواتین کے لیے لباس کے سخت ضابطے کی مبینہ خلاف ورزیکے الزام میں گرفتاری کے بعد کوما میں چلی گئی تھیں اور تین دن بعد ان کی موت کا اعلان کیا گیا تھا۔
ایران کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے اعلیٰ سکیورٹی عہدے دار کے حوالے سے بتایا کہ اوین جیل میں ’ہفتے کی رات حالات خراب ہوئے اورجھڑپیں ہوئیں‘ اور ’فسادیوں‘ نے آگ لگا دی۔
اوین جیل میں قید غیر ملکی قیدیوں میں ایرانی نژاد فرانسیسی ماہر تعلیم فریبہ عدل خوا اور امریکی شہری سیامک نمازی بھی شاملہیں، جن کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ انہیں عارضی رہائی کے بعد اس ہفتے دوبارہ حراست میں لے لیا گیا تھا۔
جیل میں آگ لگنے کی اطلاعات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نمازی کے خاندان کے وکیل نے ایک بیان اے ایف پی کے ساتھ شیئر کیا،جس میں کہا گیا کہ ’اہل خانہ کو گہری تشویش ہے اور ان کا نمازی کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا۔‘
انہوں نے ایرانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ نمازی کو اہل خانہ کے ساتھ رابطے کے لیے فوری طور پر سہولت فراہم کریں اور انہیں جیلسے عارضی رخصت دی جائے کیوں کہ وہ اوین جیل میں واضح طور پر محفوظ نہیں ہیں۔
اوین جیل میں قید امریکی کاروباری شخصیت عماد شرقی کی بہن نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ان کا خاندان واقعے کے بارے میں جان کرسخت پریشان ہے۔
دوسری جانب امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا ہے کہ واشنگٹن اوین جیل میں پیش آنے والے واقعے کو ہنگامی طور پردیکھ رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایران ’غلط طور پر قید میں رکھے گئے شہریوں کی حفاظت کا مکمل طور پر ذمہ دار ہے۔‘
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اوین جیل کے قیدیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ہفتے کو رات گئے مظاہرے کیے۔ اس سے پہلے دن کوانٹرنیٹ کی بندش کے باوجود مشتعل مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔
ایران میں جاری حالیہ مظاہروں میں خواتین پیش پیش ہیں۔ ملک میں کئی سال کے دوران یہ سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے ہیں۔سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تہران کے شریعتی ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل کالج میں حجاب کے بغیرخواتین نے نعرے لگائے کہ ’بندوقیں، ٹینک اور آتشبازی۔ ملا لازمی طور پر چلے جائیں۔‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مہسا امینی کی موت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں کے دوران اب تک کم از کم 108 افرادمارے جا چکے ہیں جب کہ جنوب مشرقی صوبہ سیستان ۔ بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں ہونے والی جھڑپوں میں بھی کم از کم93 لوگ ہلاک ہوئے۔
خیال رہے زاہدان میں مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا جب راسک میں ایرانی فورسز کے ایک اعلیٰ آفیسر کمانڈر کرنل ابراہیم کوچکزئی پرایک کمسن بچی کو تفتیش کے نام پر حراست میں لینے اور دوران حراست بچی کو مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
زاہدان میں مظاہروں کا سلسلہ تاحال وقفے وفقے سے جاری ہے جبکہ زاہدان مظاہرین سے اظہار یکجہتی کیلئے مشرقی بلوچستانسمیت دنیا بھر میں بلوچوں کیجانب سے مظاہرے کیے جارہے ہیں۔