Palestine’s Children:Returning to Haifa
مصنف : غسان کنفانی
تحریر : دوستین کھوسہ
دی بلوچستان پوسٹ
واجہ غسان کنفانی 1936 میں شمالی فلسطین کے علاقے ایکڑ ( Acre ) میں پیدا ہوئے، انہوں نے غلامی اور قبضہ گیریت اپنے بچپن سے دیکھی ، غسان کنفانی نے فرانز فینن کے نظریاتی اور سیاسی خیالات کو اکٹھا کرکے ایک نیا تصور پیش کیا، جس کا مقصد ایک ایسی قومی جدوجہد کی تخلیق کرنا تھا جو یونیورسل، بین الاقوامی اور انسانیت دوست ہو۔ واجہ غسان کنافانی مسلح تنظیم پاپولر لبریشن فرنٹ فلسطین کے ایک مشہور ترجمان اور اس کے ہفتہ وار میگزین الحدف ( Al-Hadf) کے بانی ایڈیٹر تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ دنیا کے واحد گوریلا جنگجو تھے جنہوں نے پوری زندگی ایک تیر تک نہیں چلایا بلکہ انکا قلم ، ادبی کام ، کتابیں اور تحریریں انکے تیر سے زیادہ خطرناک رہے ہیں۔ ان کے ناول اور مختصر کہانیاں کو اب تک 16 زبانوں میں ترجمہ کر کے شائع کیا جا چکا ہے۔ موساد کی طرف سے ان کو ان کی بھتیجی سمیت 1972 ء میں بیروت (Beruit) کار دھماکے میں شہید کیاگیا۔
اس کتاب میں حیفہ (Haifa ) شہر سے واپسی پر ایک فلسطینی جوڑے کی داستان بیان کی گئی ہے جو 1967 کی جنگ کے بعد اپنے بچے کی تلاش کے لیے پہلی بار واپس حیفہ (Haifa) جاتا ہے، جسے وہ 1948 ء کے جنگ میں وہیں پیچھے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ یہ کتاب ( war zone ) میں موجود لوگوں کی مشکلات ، جنگ سے ہوئی تباہ حال لوگوں کے احساسات اور قبضہ گیریت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ( Identity Crisis ) اور ( Homeland concept )کے بارے میں بتاتی ہے کہ اگر قبضہ گیر کے خلاف منظم مزاحمت نہ کی جائے تو قومی شناخت اور وجود مٹ جاتی ہے۔
سعید اور صفیہ جب حیفہ شہر کے کنارے پر پہنچتے ہیں اور یروشلم کو جاتے ہوئے سڑک کے پاس سے گزرتے ہیں تو سعید کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی چیز اس کو خاموش رہنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اس نے خود کو غمگین محسوس کیا اور دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی خاموشی سے رونے لگی ہے۔ انہیں سڑک کنارے بہتے ہوئے سمندر کی آواز آج بھی ویسی ہی محسوس ہوئی جیسی پہلے ہوا کرتی تھی۔ پرانی یادیں واپس لوٹ آئیں اور انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے انکے اندر پتھر کی دیوار گری ہو۔ گزرے واقعات ایک بار پھر ان کے سامنے آنا شروع ہوگئے۔
سعید نے خود ہی خود میں سوچا کہ شاید اس کی بیوی صفیہ بھی بالکل ویسا ہی محسوس کر رہی ہے۔ جب وہ سفر پر نکلے تھے تب سارے راستے وہ باتیں کرتے رہے اس نے اپنی بیوی کو جنگ ، تباہی ، لاشوں، شکست اور شہر کے بڑے گیٹ کے بارے میں بتایا جسے بلڈوزر سے گرایا گیا تھا۔ اس نے دشمن کے بارے میں بتایا جو چند گھنٹوں میں دریا، نہر، پھر دمشق کے کنارے تک پہنچ گیا تھا۔ اور یہ کہ جنگ بندی کیسے ہوئی تھی اور ریڈیو کے بارے میں اور جس طرح سے فوجیوں نے سامان اور فرنیچر کو لوٹا، اور کرفیو کے مشکلات بتاۓ اور اس پڑوسی کے بارے میں بتایا جس نے اپنا سامان اکٹھا کیا اور جان بچانے کے لیے بھاگا تھا، اور تین عرب فوجی جو اکیلے وکٹوریہ ہسپتال کے قریب پہاڑی پر دو دن تک لڑتے رہے تھے ، اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی فوجی وردیاں اتار کر یروشلم کی گلیوں میں جنگ لڑی، اور وہ کسان جو مارے گئے تھے۔
پورے سفر میں یہ بات چیت کا سلسلہ نہیں رکا۔ وہ دونوں حیفہ شہر کے دروازے پر پہنچ کر خاموش ہو گئے۔ اس وقت ان دونوں کو احساس ہوا کہ انہوں نے اس معاملے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا جس کی وجہ سے وہ یہاں آئے تھے۔
30 جون، 1967 کو بیس سال بعد وہ دوبارہ حیفہ آئے تھے۔ انکے دل غم سے بھاری تھے۔ اس نے اپنی بیوی سے یہ کہتے سنا کہ” یہ حیفہ ہے”
گاڑی کا اسٹرینگ اسکی ہتھیلیوں کے درمیان بھاری محسوس ہوا، جن پر پہلے سے زیادہ پسینہ آنے لگا تھا۔ اسے یہ خیال آیا کہ وہ اپنی بیوی سے کہے کہ” میں اس حیفہ کو جانتا ہوں لیکن یہ مجھے تسلیم کرنے سے انکاری ہے ، تمہیں معلوم ہے، میں نے بیس سالوں سے ہمیشہ یہ تصور کیا تھا کہ یہ گیٹ کسی دن کھل جائے گا، لیکن میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ دوسری طرف سے ( اسرائیل کی طرف ) سے کھلے گا۔ یہ میرے ذہن میں کبھی نہیں آیا۔ اسے یہ بہت ذلت آمیز لگ رہا تھا۔ وہ بولا “میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں حیفہ کو دوبارہ دیکھوں گا”۔ بیوی نے جواب دیا “آپ اسے نہیں دیکھ رہے ہیں۔ اسرائیلی آپ کو دکھا رہے ہیں انہوں نے جیسے ہی قبضہ مکمل کیا، اچانک اور فوری طور پر سرحد کھول دی۔ تاریخ میں کسی جنگ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اپریل 1948 میں جو بھیانک واقعہ ہوا تھا، وہ آپ جانتے ہیں، تو اب، ایسا کیوں؟ صرف ہماری خاطر؟” نہیں! یہ دماغی جنگ کا حصہ ہے۔ وہ ہم سے کہہ رہے ہیں، ‘اپنی مدد کرو، دیکھو ہم تم سے کتنے بہتر ہیں، کتنے ترقی یافتہ ہیں۔ تمہیں ہمارا غلام ہونا قبول کرنا چاہیے، تمہیں ہماری تعریف کرنی چاہیے۔ ہم تم سے ہزار گنا زیادہ طاقتور اور مہذب ہیں۔”
جنگ کی یادیں اب بھی اتنی مضبوط تھی اسے شہر میں اندھیرا اور مشتعل چیزیں ، چہرے سخت اور وحشی دکھائی دے رہے تھے۔ اسے احساس ہوا کہ حیفہ کی گلیوں میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ وہ حیفہ کی راہوں کا پتھر پتھر جانتا تھا۔ اس نے گاڑی میں کئی بار اس سڑک کو عبور کیا تھا وہ حیفہ کو اچھی طرح جانتا تھا، اور اب اسے لگا جیسے وہ بیس سال سے دور نہیں ہے۔ وہ اپنی گاڑی ویسے ہی چلا رہا تھا جیسے وہ چلاتا رہا تھا، جیسے وہ ان بیس تلخ سالوں سے غائب ہی نہ رہا ہو۔
“اچھا، ہم کہاں سے شروع کریں؟” اسنے بیوی سے پوچھا
وہ خاموش تھی۔ اس نے اسے خاموشی سے روتے ہوئے سنا، اور اس نے اپنے آپ سے اندازہ لگایا کہ وہ کس مصیبت اور تکلیف کو برداشت کر رہی تھی۔ وہ اس درد کو سمجھ سکتا تھا، اور یہ بیس سال سے برداشت کر رہی تھی اب یہ اس کے اندر، اس کے سر میں، اس کے دل میں، اس کی یادوں میں، اس کے تخیل میں، اس کے تمام وجود توڑ رہا تھا۔
21 اپریل، 1948 کو جب جنگ شروع ہوئی سعید اور سیفیہ کی شادی کوایک سال اور 5 مہینے ہوئے تھے اور افراتفری ، بم دھماکوں ، بمباری تباہی میں وہ اپنے 5 ماہ کے بچے خلدون کو وہیں چھوڑ کر شہر سے نکلنے پر مجبور ہوئے ، اب وہ اپنے اس پرانے گھر پر پہنچ چکے تھے جس پر اب یہودی نوآبادکار رہتے تھے۔ اس پرانے گھر کے دروازے پر پہنچ کر اسنے گھنٹی بجائی اور زبردستی اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجائی اور صفیہ کے سر پر ہاتھ رکھا۔ دروازے کے پیچھے سے انہیں آہستہ قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ ایک بوڑھی عورت تھی اسنے دروازے آہستہ سے کھولا۔ وہ سعید اور صفیہ کو کمرے میں لے گئی۔ وہ گھر ، کمروں کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جو کبھی انکا ہوا کرتا تھا۔ یروشلم کی ایک تصویر جو اسے بہت واضح طور پر یاد تھی وہیں کی وہیں لٹکی ہوئی تھی۔ مخالف دیوار پر ایک چھوٹا شامی قالین بھی لٹکا تھا جہاں وہ ہمیشہ لٹکا رہتا تھا۔ اس نے چاروں طرف دیکھا جب وہ روم میں پہنچے تو اس نے پانچ کے سیٹ میں سے دو کرسیاں دیکھیں جن کا وہ مالک تھا۔ باقی تین کرسیاں نئی تھیں، کمرے کے بیچوں بیچ وہی میز بچھی ہوئی تھی، حالانکہ اس کا رنگ کچھ پھیکا پڑ گیا تھا۔ اس کی نظر صفیہ پر پڑی تو دیکھا کہ وہ الجھی ہوئی ہے۔ وہ کمرے کے کونے کونے کا جائزہ لے رہی تھی جیسے غائب چیزوں کو گن رہی ہو۔ بوڑھی عورت ان کے سامنے کرسیوں میں سے ایک کے بازو پر بیٹھی اپنے چہرے پر خالی مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھ رہی تھی۔ آخر اس نے مسکراہٹ بدلے بغیر کہا: “میں کافی عرصے سے آپ کا انتظار کر رہی ہوں۔” سعید نے آگے جھک کر اس سے پوچھا:
“کیا آپ جانتی ہو ہم کون ہیں؟
“تم اس گھر کے مالک ہو۔ یہ میں جانتی ہوں۔”
“تم کیسے جانتی ہو؟”
سعید اور صفیہ دونوں نے بیک وقت سوال کیا۔
بوڑھی عورت مسکراتی رہی۔ پھر کہنے لگی:
“ہر چیز سے، تصویروں سے، جس طرح سے تم دونوں دروازے کے سامنے کھڑے تھے، سچ تو یہ ہے کہ جب سے جنگ ختم ہوئی ہے، بہت سے لوگ یہاں آئے ہیں، گھروں کو دیکھتے اور ان کے اندر جاتے ہیں۔ ہر روز میں نے کہا۔ کہ تم ضرور آؤ گے۔”
کمرے میں موجود تینوں لوگ وہاں موجود چیزوں کو غور غور سے دیکھ رہے تھے مگر آنکھوں کے تین جوڑے ایک چیز کو دیکھ رہے تھے… لیکن ہر ایک اسے بلکل مختلف انداز سے دیکھ رہا تھا۔
سعید اور سیفیہ بوڑھی یہودی عورت سے اپنے بچے خلدون کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ یہاں کب آئے گا؟”
بوڑھی یہودی عورت نے انہیں بتایا وہ یہاں آتا ہی ہوگا اور بولی “سنو، مسٹر نے کہا ہے کہ میں آپ کو ایک اہم بات کروں کہ ہم چاہتے تھے کہ آپ Dov یا خلدون کو یہ فیصلہ کرنے کا حق دیں کہ وہ آپکے ساتھ جانا چاہتا ہے یا ہمارے ساتھ ۔ کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟” تو صفیہ بولی “یہ ایک منصفانہ انتخاب ہے۔ مجھے یقین ہے کہ خلدون اپنے حقیقی والدین کا انتخاب کرے گا۔ گوشت اور خون کی پکار سے انکار کرنا ناممکن ہے۔”
سعید ہنستے ہوئے بولا، اس کی ہنسی کڑواہٹ سے بھری ہوئی تھی جو شکست کی طرف اشارہ کرتی تھی۔
“کیا خلدون، صفیہ؟ کیا خلدون؟ تم کس گوشت اور خون کی بات کر رہے ہو؟ تم کہتے ہو کہ یہ ایک منصفانہ انتخاب ہے؟ یہودیوں نے اسے سکھایا ہے کہ بیس سال تک کیسے رہنا ہے، دن بہ دن، گھنٹہ گھنٹہ، اس کے کھانے کے ساتھ، اس کا پینا، اس کی نیند۔ اور آپ کہتے ہیں، ایک منصفانہ انتخاب! واقعی۔
صفیہ نے پہلی بار اس سچائی کا سامنا کیا۔ سعید کی باتیں اسے سچ لگ رہی تھیں، لیکن وہ پھر بھی امید کے اس پوشیدہ دھاگے سے جڑے رہنے کی کوشش کر رہی تھی جسے اس نے بیس سال سے اپنے تخیل میں بنایا تھا۔ اس کے شوہر نے اس سے کہا: “شاید اسے کبھی بھی معلوم نہ ہو کہ وہ فلسطینی والدین سے پیدا ہوا ہے۔ یا شاید اس نے یہ بات ایک ماہ پہلے، ایک ہفتہ پہلے، ایک سال پہلے سیکھی تھی۔ جرم بیس سال پہلے شروع ہوا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قیمت کس نے ادا کی ہے۔ یہ اس دن سے شروع ہوا جب ہم نے اسے یہاں چھوڑا تھا۔”
“لیکن ہم نے اسے نہیں چھوڑا تم جانتے ہو؟”
“ہاں، ضرور، ہمیں کچھ نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ خلدون نہیں، گھر نہیں، حیفہ نہیں! کیا تم پر وہی خوفناک احساس نہیں آیا جو حیفہ کی سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہوئے مجھ پر آیا تھا؟ میں حیفہ کو جانتا تھا، پھر بھی میرے شہر نے مجھے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مجھے اس گھر میں، یہاں، ہمارے گھر میں بھی ایسا ہی احساس تھا، کیا آپ سوچ سکتے ہیں؟ کہ ہمارا گھر ہمیں تسلیم کرنے سے انکار کر دے گا؟ کیا آپ محسوس نہیں کرتے؟ مجھے یقین ہے۔ خلدون بھی یہی کرے گا۔
اسی اثناء میں انکا بیٹا خلدون آیا اور پوچھنے لگا
“آپ کیا چاہتے ہیں جناب؟” اسی وقت صفیہ کی سسکیوں کی آوازیں بلند ہوئیں، خلدون اسرائیل کی فوجی وردی میں تھا۔
“نہیں۔ یہ ناممکن ہے۔ یہ ناقابل یقین ہے۔”
سعید نے خاموشی سے پوچھا: “تم فوج میں ہو؟ کس سے لڑ رہے ہو؟ کیوں؟
جواب : “تمہیں یہ سوال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ تم عرب ہو دشمن ہو۔”
“میں؟ میں دوسری طرف ہوں؟”
سعید درد اور تکلف بھری ہنسی ہنسنے لگا۔
“مجھے ہنسنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔”
“کیا تمہیں نہیں لگتا کہ ہم تمہارے والدین ہیں؟”
اس پر نوجوان نے اس کی آواز بالکل بدل کر کہا:
“ہمیں مہذب لوگوں کی طرح بات کرنے کی ضرورت ہے۔”
سعید پھر سے ہنسا۔
“آپ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے، کیا یہ ٹھیک نہیں ہے؟ آپ نے کہا کہ میں اور آپ ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ کیا ہوا؟ کیا آپ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، یا کیا؟”
صفیہ نے غصے سے پوچھا:
“اس نے کیا کہا؟”
“کچھ نہیں۔”
“میں تقریباً تین یا چار سال پہلے تک نہیں جانتا تھا کہ یہودی میرے والدین نہیں تھے۔ جب سے میں چھوٹا تھا تب سے میں ایک یہودی تھا… میں یہودی اسکول گیا، میں نے عمرانی زبان پڑھا ، میں اسرائیلی مسجد جاتا ہوں۔ جب یہودیوں نے مجھے بتایا کہ میں ان کا اپنا بچہ نہیں ہوں، تو اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، یہاں تک کہ جب انہوں نے مجھے بتایا – بعد میں کہ میرے اصل والدین عرب ہیی ، اس سے کچھ نہیں بدلا، کچھ نہیں بدلا۔ یہ یقینی ہے۔ آخرکار، حتمی تجزیہ میں، انسان ایک وجہ ہے ( Man is a Cause)۔
“تو پھر تم مجھے ڈھونڈنے کیوں آئے ہو؟”
اچانک اس نے کہا:
“جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ عرب ہیں، میں اپنے آپ سے پوچھتا رہا: ایک باپ اور ماں اپنے پانچ ماہ کے بیٹے کو پیچھے چھوڑ کر کیسے بھاگ سکتے ہیں؟ کیسے ایک ماں اور باپ اس کی پرورش کر سکتے ہیں اور اسے بیس سال تک تعلیم دے سکتے ہیں؟ “بیس سال؟ کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں جناب؟”
’’نہیں،میں شاید اپنے جذبات کو بیان نہیں کر سکوں”.
“میں یہاں سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہ یہودی عورت میری ماں ہے، میں تم دونوں کو نہیں جانتا۔”
سعید اسکو بتاتا ہے کہ
“۔ تم اگر خود کو یہودی بول رہے تو آپ کی پہلی لڑائی خالد نامی فدائی سے ہو گی۔ خالد میرا بیٹا ہے اور آپ کا بھائی ہے۔ پچھلے ہفتے خالد فدائین میں شامل ہوا، کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم نے اس کا نام خالد کیوں رکھا، خلدون نہیں، کیوں کہ ہم ہمیشہ سوچتے تھے کہ ہم آپ کو ڈھونڈ لیں گے، چاہے بیس سال لگ جائیں، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے آپ کو نہیں پایا، اور مجھے یقین نہیں ہے کہ ہم آپ کو تلاش کر لیں گے۔”
“وطن کیا ہے؟” ( What is Homeland)
“آپ نے کیا کہا؟”
“میں نے کہا، وطن کیا ہے؟ میں ایک لمحے پہلے اپنے آپ سے یہ سوال پوچھ رہا تھا۔ وطن کیا ہوتا ہے؟ کیا یہ دو کرسیاں بیس سال تک اس کمرے میں رہیں؟ میز؟ مور کے پنکھ؟ یروشلم کی تصویر؟ دیوار پر؟ تانبے کا تالا؟ بلوط کا درخت؟ بالکونی؟ وطن کیا ہے؟ خلدون؟ اس کے بارے میں ہمارا وہم؟ نسلوں کا، ان کے بیٹوں کا؟ وطن کیا ہے؟ کیا یہ دیوار پر اس کے بھائی کی تصویر لٹکی ہوئی ہے؟ میں صرف پوچھ رہا ہوں۔”
صفیہ ایک بار پھر رونے لگی۔ اس نے ایک چھوٹے سے سفید رومال سے اپنے آنسو خشک کئے۔ اس کی طرف دیکھ کر سید نے سوچا: “اس عورت کی عمر کتنی بڑھ گئی ہے۔ اس نے اس لمحے کے انتظار میں اپنی جوانی ضائع کردی، نہ جانے یہ کیسا ہولناک لمحہ ہوگا۔”
اس نے دوبارہ ڈو (خلدون) کی طرف دیکھا اور اسے یہ بالکل ناممکن لگ رہا تھا کہ وہ اس عورت سے پیدا ہو سکتا تھا۔ اس نے ڈو اور خالد کے درمیان کچھ مماثلت پیدا کرنے کی کوشش کی، لیکن اسے ان کے درمیان کوئی مماثلت نہیں ملی۔ اس کے بجائے، اس نے ان دونوں کے درمیان ایک فرق دیکھا جس نے انہیں مکمل مخالف بنا دیا۔ اس نے اسے حیران کر دیا کہ اس نے ڈو ( خلدون) سے پیار کھو دیا ہے۔ اس نے تصور کیا کہ خلدون کے بارے میں اس کی تمام یادیں مٹھی بھر برف ہیں جس پر چمکتا سورج اچانک چمک کر پگھل گیا تھا۔
وہ ابھی تک اسے ہی دیکھ رہا تھا جب ڈیو اٹھا اور سعید کے سامنے یوں کھڑا ہو گیا جیسے فوجی بٹالین کا سربراہ ہو۔
“تمہیں حیفہ کو نہیں چھوڑنا چاہیے تھا، اگر یہ ممکن نہیں تھا، تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، تمہیں اس کے پالنے میں ایک شیر خوار بچے کو نہیں چھوڑنا چاہیے تھا۔ اور اگر یہ ناممکن بھی تھا تو پھر تمہیں واپسی کی کوشش کبھی نہیں روکنی چاہیے تھی۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ بھی ناممکن تھا؟ بیس سال گزر گئے جناب! بیس سال! اس دوران آپ نے اپنے بیٹے کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کیا کیا؟ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا تو میں اس کے لیے ہتھیار اٹھا لیتا، کیا اس سے بڑا کوئی مضبوط مقصد ہے؟
کمزور ہو! کمزور ہو! تم پسماندگی اور نامردی کی بھاری زنجیروں میں جکڑے ہو! مجھے مت بتاؤ کہ تم نے بیس سال روتے ہوئے گزار دیے! آنسو گمشدہ کو واپس نہیں لا سکتے، آنسو معجزے نہیں لا سکتے! دنیا میں آنسو دو ماں باپ کو اپنے کھوئے ہوئے بچے نہیں دے سکتے، تو تم نے بیس سال روتے ہوئے گزار دیے، اب تم مجھے یہی بتاؤ، کیا یہ آنسو تمہارے ہتھیار ہے؟”
سعید اور سفیہ کا بیٹا جو کہ اس وقت اسرائیلی فوج کا سپاہی تھا انکو یہ بول کر جانے کا کہتا کہ اب اس کا وطن اسرائیل ہے اور وہ یہودی ہے اسے اس بات پر فخر ہے۔ سعید گھر سے باہر آتے وقت اس کو اور یہودی عورت کو بولتا ہے کہ ٹھیک ہے کچھ وقت کےلئے تم لوگوں نے ہمارے گھر، وطن ، اولاد ، زمین پر قبضہ کر لیا ہے مگر یہ عارضی ہے میرا بیٹا خالد جو کہ فلسطینی سرمچاروں کے فدائین سکواڈ میں ہوتاہے وہ ایک دن اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ہمارا وطن آزاد کرواۓ گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں