ہوائیں حاملہ ہیں ۔ محمد خان داؤد

209

ہوائیں حاملہ ہیں

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب ان کا لہو اور جسم بارود سے بندھ کر ہواؤں کی نظر ہوجاتا ہے تو ہوائیں حاملہ ہو جا تی ہیں۔ جہاں جہاں تک لہو رنگ جاتا ہے، وہاں وہاں تک ہوائیں حاملہ ہوجاتی ہیں۔ جہاں جہاں تک لہو کی خوشبو جا تی ہے وہاں وہاں تک ہوائیں حاملہ ہوتی ہیں اور جہاں جہاں ہوا ان جسموں کو بارود کی بو سمیت بکھیردیتی ہے وہاں وہاں تک ہوائیں حاملہ ہو جا تی ہیں۔ صرف ہوائیں کیا وہ تو دھرتی کو بھی گرب زدہ کر جا تے ہیں، وہ تو دھرتی کے رحم کو بھی بھاری کر جاتے ہیں اور دھرتی کو ان عاشقوں سے محبوب جیسی محبت ہو جا تی ہے۔ وہ دھرتی کو حاملہ کر جا تے ہیں اور دھرتی آگے بڑھ کر ان کو چوم لیتی ہے۔ ایسے عاشق کوئی ایک دو نہیں پر سیکڑوں ہیں جو بس دھرتی کے لیے دھرتی پر قربان ہو گئے۔ ان مخصوص پنوں میں ان عاشقوں کے نام درج نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی ان مخصوص پنوں میں یہ درج کیا جا سکتا ہے کہ دھرتی نے ان سے حاملہ ہونے کے بعد کہاں کہاں اور کس کس کو جنا؟

پہلے دھرتی نے انہیں چوما ہے تو ان کے گال سرخ گلابوں کی مانند ہو گئے ہیں، پر جب بھی انہوں نے دھرتی کو چوما ہے تو دھرتی حاملہ ہوئی ہے۔ یہ کسی دوشیزہ کے عاشق نہیں رہے انہوں نے پتلی کمر گھنے لمبے بال گلاب کی پتیوں جیسے لب اور دودھ جیسی رنگت والی محبوبائیں بھی دھرتی پر قربان کیں۔

وہ ”کینسر وارڈ“والے کردار نہیں ہیں جو محبوبہ کے پیچھے بس اس لیے بھاگتے رہتے ہیں کہ وہ انہیں چومنے دے بس ایک بوسہ لینے دے بس ایک کسِ دے پر جب”کینسر وارڈ“والے کردار جان جاتے ہیں سمجھ جاتے ہیں انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ سکھی پیاری تو ہے پر دھرتی تو سکھی سے بھی زیادہ پیاری ہے۔

پھر جب وہ محبوبہ آگے بڑھ کر اپنے گال،ہونٹ،پسینے سے شرابور گردن اور محبت سے بھرے پستان انہیں پیش کرتی ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور محبوبہ کو بوسہ نہیں دیتا محبوبہ بہت اسرار کرتی ہے اور کہتی ہے میں زمانے کو زمانے کی باتوں کو بہت پیچھے چھوڑ آئی ہوں آؤ اور مجھ سے لپٹ جاؤ مجھے تھام لو مجھے چوموں!
تو ”کینسر وارڈ“ کا کردار سوالیہ جواب دیتا ہے کہ
”کیا میرا بوسہ تمہا رے رحم تک جائے گا؟
کیا تم میرے بوسے سے حاملہ ہو جاؤ گی؟“
محبوبہ حیران رہ جا تی ہے اور وہ ان لبوں،گالوں،آنکھوں بالوں،پسینے سے شرابور سینے اور محبت سے بھرے پستانوں سے ایسے منھ اور آنکھیں چرا لیتے ہیں جیسے بڑھتی عمر کے بچے ماؤں کے دودھ سے خالی پستانوں سے نظریں چرا لیتے ہیں
کیوں کہ ”کینسر وارڈ“کا کردار جان جاتا ہے کہ
”اول مٹی
آخر مٹی
مٹی زندہ باد!“
ہم محبوباؤں کے پستانوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
اور وہ ہواؤں کو حاملہ کر رہے ہیں
ہم محبوباؤں کی زلفوں کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں
اور وہ دھرتی کو ایسا بوسہ دیتے ہیں جس سے دھرتی گرب زدہ ہو جاتی ہے
ہم رات کی تاریکی میں بہت مشکل سے محبوبہ کو بوسہ دیتے ہیں ان بوسوں سے کیا ہوتا ہے؟
ان بوسوں سے تو ان کے چہروں پر سرخی بھی نہیں کھلتی کوئی گلاب نمودار نہیں ہوتا
پر جب وہ آگے بڑھ کر دھرتی کو بوسہ دیتے ہیں تو وہ بوسہ سیدھا رحم تک جاتا ہے
اور دھرتی حاملہ ہو جا تی ہے
پھر دھرتی محبت کو جنم دیتی ہے
”اول محبت
آخر محبت
محبت زندہ باد“
پھر وہ گھنے بالوں والی،ہرنی آنکھوں والی،موتی دانتو والی ایسے چہروں والی جن چہروں کے لیے لطیف نے کہا تھا کہ
”میرے محبوب کے چہرے میں دن بھی ہے
اور رات بھی
جب وہ اپنی سیاہ زلفیں بکھیر دیتی ہے تو رات چھا جا تی ہے
اور جب میں اس کے چاند سے چہرے کو تکتا ہوں
تو دن نکل آتا ہے!“

دودھ و سندور رنگت والی،اپنی محبوباؤں کو چھوڑ کر دھرتی کے ہو جا تے ہیں۔وہ گھروں کو چھوڑ کر ان پہاڑوں اور پتھروں کے ہو جا تے ہیں جن پہاڑوں کی چوٹیوں پر وہ چاند سے باتیں کرتے ہیں اور پہاڑوں پر رکھے پتھروں پر اپنی بندوق کی نال سے کرید کرید کر ایسی باتیں لکھتے ہیں کہ جنہیں بس دھرتی اور ہوائیں ہی پڑھ سکتی ہیں اور جان سکتی ہیں کہ ان ادھو ری باتوں میں پورا پن کیا ہے؟
”محبت
وہ مسکراتی بہت تھی
مسکرانے سے اس کے گالوں میں ڈمپل پڑ جا تے تھے
وہ بہت خوبصورت تھی پر دھرتی پر قربان
اس کی خوشبو ایسی تھی جیسے ابھی کسی نوجوان لڑکی نے بچہ پیدا کیا ہو
اس خوشبو سے ہوائیں حاملہ ہو جایا کرتی تھیں!“
وہ کون تھے جو پہاڑوں کے مکین بنے؟وہ کون تھے جنہوں نے گھر چھوڑے؟وہ کون تھے جن تکیے پتھر بنے؟وہ کون تھے جو پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ کر چاند سے مخاطب ہو تے ہیں؟وہ کون ہیں جن کا خون ہواؤں کو حاملہ کر دیتا ہے؟وہ کون ہیں جن کے جسموں کے زروں سے ہوائیں اور دھرتی حاملہ ہو کر محبت کو جنم دیتی ہے؟وہ کون ہیں جو آزادی کے شیدائی اور محبوباؤں کو بس اس لیے اپنی بانہوں میں نہیں لیتے کہ کہیں دھرتی ان سے دور نہ ہو جائے؟وہ کون ہیں جو اپنے بوسوں سے ہی محبوباؤں کو حاملہ کر دیتے ہیں؟وہ کون ہیں جو پہاڑوں میں ہیں؟وہ کون ہیں جو جنگلوں میں ہیں؟وہ کون ہیں جو ہر دور کے سامراجی طاقتوں سے بر سرِ پیکار ہیں؟
وہ جو آپ ہی نظم
آپ ہی گیت ہیں
وہ کون ہیں جنہیں دھرتی گا رہی ہے
ازل سے ابد تک!
وہ کون ہیں جن کا لہو سستا نہیں
وہ کون ہیں جن کا لہو سفید نہیں
وہ کون ہیں جن کی رنگت گلاب میں ہے
وہ کون ہیں جن کی خوشبو جوان لڑکیوں کے پسینے میں ہے
وہ کون ہیں جو سراسر محبت ہیں
ایمان ہیں
ایمان کا جز ہیں
وہ کون ہیں جو بہت دور بستے ہیں
وہ کون ہیں جو قریب تر محسوس ہو تے ہیں
جب ان کا لہودھرتی اور ہواؤں کو حاملہ کر جاتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں