بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں بلوچ سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف پریس کلب کے احاطے میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاجی کیمپ کو 4775 دن مکمل ہوگئے۔
اس موقع پر بلوچ وومین فورم کے فرزانہ بلوچ، سلطانہ بلوچ اور ماہ روش بلوچ نے آکر اظہار یکجہتی کی جبکہ بھوک ہڑتالی کیمپ میں تنظیم کے چیئرمین نصراللہ بلوچ بھی موجود تھے –
وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ جو اپنی ذات کے بجائے قومی اجتماعی مفاد کی بات کرتا ہے ریاست ان کو نشانہ بناتی ہے، ریاست ایسی پالیسیاں بناتی ہیں کہ اپنے لیے سوچوں دوسروں کے بارے میں نہیں، اس کے لیے وہ ایسی پالیسیاں مرتب کرتی ہے انہی پالیسیوں کا ثمر ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے خفا اور بیگانہ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ قوم کی ایک طویل جدوجہد ہے، بلوچ فرزند قربانی دے رہے ہیں اس لیے ریاستی فورسزز اور خفیہ ادارے پورے بلوچ قوم کے دشمن بنے ہوئے ہیں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے بلوچوں کو جبری لاپتہ کرنا روز کا معمول ہے سرحدوں پر ایسے حالات بنائے گئے ہیں کہ ایک علاقے کا بلوچ دوسرے علاقے میں نہ جا سکے ہزاروں سال بلوچ جس سرزمین کے مالک ہیں آج ان کی اپنی سرزمین ان پر تنگ کر دی گئی ہے سرحدوں کو بلوچوں کے آمد و رفت کیلیے بالکل بند کردیا گیا ہے روزگار کے دروازے مکمل بند ہیں۔ وسیع عریض سمندر کے ہوتے ہوئے بلوچ پینے کے پانی کے لیے ترس رہے ہیں جبکہ نشہ اور اشیاء کی سپلائی خفیہ اداروں کے نگرانی میں بدستور جاری ہے۔