نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پارٹی رہنماء ڈاکٹر جمیل بلوچ کو بارکھان سے 23 فروری کودوپہر 2 بجے کے قریب جبری طور پر لاپتہ کر دیا گیا۔ ڈاکٹر جمیل کے لاپتہ کرنے کے اگلے دن ڈاکٹر جمیل بلوچ کے دو ساتھيوں کوبھی لاپتہ کر دیا تھا جو بارکھان میں بوگس لوکل ڈومیسائل کے مسئلے پر سیاسی طور پر صف اول کا کرداد ادا کر رہے تھے۔ کچھوقت بعد ان دو نوجوانوں کو منظر عام پر لاکر رہا کر دیا گیا مگر پارٹی رہنما تاحال جبری طور لاپتہ ہیں۔
ڈاکٹر جمیل بلوچ کو جبری طور لاپتہ ہوئے آج سات مہینے مکمل ہو چکے ہیں مگر تاحال منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔ سیاسی کارکنوںکو یوں لاپتہ کرنا آئین پاکستان سمیت عالمی انسانی حقوق کے قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ڈاکٹر جمیل کی بحفاظت بازیابی کے لئےپارٹی اور اہلخانہ کی طرف سے متعد بار احتجاج تحریک چلایا گیا، پریس کلب کے سامنے مظاہرے ہوئے، پریس کانفرنس اور پریسریلیز جاری ہوئے ہر جمہوری و آئینی طریقہ کار کو بروکار لایا گیا ہے مگر جبری گمشدگی کا خاتمہ ہونے کے بجائے اس میں شدت پیداہو رہی ہے۔
بلوچی ادب سے تعلق رکھنے والے اور معروف پبلشر لالا فہیم بلوچ بھی گذشتہ مہینے کراچی سے لاپتہ ہوئے جن کی جبری گمشدگیمیں ملوث پولیس کی وردی میں ملبوس اہلکاروں کی سی سی ٹی وی کے ذریعے فوٹیج بھی برآمد ہوئے۔ انکے اہلخانہ بھی آئینی طریقےسے ایف آئی آر کٹوا کر ملکی عدالتوں پر اعتماد کرتے ہوئے سنوائی کا انتظار کر رئے ہیں۔ عام شہری کو اپنے بنیادی حقوق سے محرومکر کے ماروائے عدالت لاپتہ کرنا سنگین جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا قبلہ درست کر کے جبریگمشدگی کا خاتمہ نہ کیا تو ان پر عوامی ردعمل کا جو عذاب آئے گا اس سے بچنا ناممکن ہوگا اس لئے غیر آئینی و غیر اخلاقیپالیسیوں کو ترک کر کے ڈاکٹر جمیل اور لالا فہيم بلوچ سمیت تمام جبری طور لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے۔