معتقد ءِ آجوئی؛ نصیب بنگلزئی – بلوچ خان

603

معتقد ءِ آجوئی؛ نصیب بنگلزئی

تحریر: بلوچ خان

دی بلوچستان پوسٹ

نفسیاتی علوم پر دسترس رکھنے والے ماہر نفسیات اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ انسانی ذہن جس ماحول میں ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے یا نشونما پاتا ہے وہ تمام تر اثرات اسکے ذہن پر نقش ہوتے ہیں، اسی لئے فلسفی جان لاک نے “tabula Rasa” اصطلاح کے معنی ومفہوم کو اس طرح متعارف کروایا کہ کسی چھوٹے بچے کا ذہن خالی تختی کی مانند ہوتا ہے۔ اس تختی پر ابتدائی ادوار میں جو کچھ لکھا جائے وہی اسکا مستقبل ہے۔ ماحولیاتی اسر و رسوخ کی وجہ سے انسان چیزوں کو اسی مخصوص عینک سے پرکھنا شروع کردیتا ہے، جو اس کو ماحول سے ملتا ہے۔

اسی لئے جب کسی جہدکار کے خاندان میں سے کسی فرد کا قومی تحریک آجوئی سے وابستگی ہوتا ہے تو ہم کہتے کہ فلاں کو وراثت میں درس آجوئی ملی ہے۔ نصیب بنگلزئی جس عمر میں بلوچ قومی تحریک آجوئی کا حصہ بنکر بلوچستان کے اونچے پہاڑوں کے چوٹیوں سے سفر کرتا دشمن پر کڑکتی بجلی کی مانند گرجتا رہا، دشمن کو ناخن چبوانے پر مجبور کرتا رہا اس عمر میں اکثر بچے اسکول و کھلینے کودنے میں مگن ہوتے ہیں لیکن وہ بندوق اٹھا کر بلند و بالا پہاڑوں کی حفاظت کیلے بلوچ ننگ و ناموس، تہذہب شناخت کیلے اپنی زندگی کا ہر لمحہ وقف کرتا ہے۔

اس نے اپنی کم عمری میں انفرادیت سے پاک ایک انفرادی زندگی کو چھوڑ کر اجتماعی زندگی گزارا۔ جہاں وہ اپنے قوم کیلے قومی آزادی کی حصول کی خاطر بارہ سالہ عمر میں ایک تلخ ، پرکھٹن ، خشک ، اور کانٹوں سے بھری زندگی کا انتخاب کیا۔

اسی عمر میں اسپلنجی کے اونچے پہاڑوں کے کیمپ میں ہاتھ میں بندوق تھام کر دشمن اور قابض ریاست نیست و نابود کرنے کا عہد کرتا ہے۔

تروند تیز آواز میں پہاڑوں کے بیچ وہ دشمن سے کہتا ہے کہ تم سے قبل ایران کا نوشیروان ، محمود غزنوی ، جنرل مرویدو دیگر بیرونی طاقتیں بھی بلوچ کو زیر عتاب کرچکے ہیں۔ لیکن بلوچ ہمیشہ سے مزاحمت کرتا چلا آرہا ہے۔ بلوچ نے کبھی دشمن کو پیٹھ نہیں دکھائی۔ یہ نسل ہے، اسکے جینز میں مزاحمت وجود رکھتا ہے اسی عہد کے ساتھ وہ گوریلوں کے کیمپ میں مسلسل تنظیمی کاموں میں مصروف رہا۔

محنت و سنجیدگی کے ساتھ گوریلا جنگی حمکت عملیوں کو سکیھنے پر غور و فکر کرتا وہ اپنی جوانی میں ہی ایک ماہر جنگجو ثابت ہوئے انکی جنگجوانا صلاحتیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیمپ کے “ریجنل کمانڈر” منتخب کئے گئے۔ تنظیم و قومی تحریک سے مخلصی اور ہمیشہ دشمن کو اپنے سرزمین سے پیچھے ہٹانے اور دشمن پر حملہ کرنے کیلے پرعزم رہتا۔

بقول مورخ مبارک علی ‘دراصل باغی وہ لوگ ہوتے ہیں، جو موجودہ حالات سے تنگ آکر متشددانہ راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اپنی جان و مال ، دولت ، جائیداد سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔

نصیب بنگلزی ایک مکمل گوریلا کمانڈر اور باغی کے تعریف پر پورا اُترتا ہے۔ کم عمری میں اپنے بھائی کے وطن کی حفاظت کی خاطر شہید ہونے کے باوصف وہ کمزور نہ ہوئے بلکہ ایک نئے جوش، ہمت و حوصلے کے ساتھ ابھر کر دشمن پر حملہ آوار ہوتا رہتا ہے۔ اپنے باپ و دادا کے جائیداد پر ریاستی قبضہ ہونے اور مال و جائیداد ضبط ہونے کے بعد بھی عارضی آسائش اور قبضہ گیر کے ٹکڑوں پر ذندہ رہنے کے بجائے وہ آزاد بلوچستان کی جہدوجہد کو ترجیح دیتا ہے۔

شہید کے رشتداروں کو ریاستی اہلکاروں نے تنگ کیا بعض کو شہد کیا گیا مگر آپکا ایمان و عقیدہ پختہ تھا۔

انگریزی قبضہ گیروں کے خلاف مسلح جدوجہد و بغاوت کرنے والے میر مہراب خان اور پاکستانی جبری الحاق کے خلاف مسلح محاز کھولنے والے آغا کریم کا درس شہادت انکا گھر سے بچپن سے ملا تھا۔

نصیب بنگلزی ، میر مہراب ، آغا کریم کے عمل نظریات ، خیالات ، کو وسعت دیکر بلوچستان کی جدوجہد کے لئے اپنے والد اور بھائی کے نقش قدم پر چلتا اور انکے تعلیمات پر عمل کرتا ، اور بلوچ قومی جدوجہد میں سرمچاروں کے قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے مقصد کے حصول کیلے جدوجہد کرتا۔

اپنی ذاتی خواہشات کو مقصد کے حصول میں کبھی عار بننے نہیں دیا ۔ اپنے قومی مقصد کے حصول کیلے اپنی ذاتی خواہشات کو قتل کرنا بلوچ سرمچاروں میں ایک اجتماعی عمل ہے۔ کوئی بھی سرمچار محاز پر اپنے ذاتئ فائدے کیلے کسی دوسرے سرمچار کا نقصان نہیں کرتا۔ یہ ان میں بھائ چارے اور مخلصی کا ایک حقیقی مثال ہے۔

نصیب جیسے نوجوان جو اپنے ابتدائی عمر میں انقلابی تعلیمات حاصل کرنے کے بعد کیمپ میں سنجیدہ سرمچاروں کے مابین رہ کر انکا کردار اور شخصیت مضبوط ہوتا گیا ۔ اسی بھائی چارے مہر و محبت مخلصی کی اعلی مثال اس وقت قائم کی جب ناگاہو میں قبضہ گیر ریاست کے آپریشن کے دوران تنظیمی ساتھیوں کو گھیرے سے باہر نکالنے کیلئے خود دشمن کے سامنے مورچہ ذن ہوگئے اور اپنے تنظیمی ساتھی کو گھیرے سے نکالنے کیلے مسلسل دشمن پر گولیاں برساتا رہا ۔ سرمچار ساتھیوں کو بحفاظت نکالنے میں کامیاب ہوکر اپنے مقصد ، قومی آزادی شناخت و ننگ ناموس کی خاطر اپنی جان نچھاور کردی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں