ضلع خیبر میں مبینہ عسکریت پسندوں کی موجودگی کیخلاف احتجاج

264

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے خیبر میں مبینہ عسکریت پسندوں کے منظر عام پر آنے اور سرگرمیاں شروع کرنے کے خلاف مقامی سیاسی جماعتیں اور شہری احتجاج کر رہے ہیں۔

قیامِ امن اور عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے اتوار کو مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور عام شہریوں نے ’خیبر امن مارچ‘ کا انعقاد کیا، جس میں سیاسی کارکنوں، طلبہ، تاجروں اور مقامی شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

باڑہ میں ہونے والے مارچ میں شرکا نے امن کے حق اور تشدد کے خلاف پوسٹر اور کتبے اٹھا رکھے تھے جب کہ وہ عسکریت پسندی، دہشت گردی اور تشدد کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

صوبے میں امن ریلیوں کے انعقاد کا سلسلہ لوئر دیر میں گزشتہ ماہ آٹھ اگست کو اس وقت شروع ہوا تھا، جب چھ اگست کی رات صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رکنِ صوبائی اسمبلی قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ فائرنگ کے اس واقعے کے خلاف احتجاج کے لیےمقامی افراد سڑکوں پر نکل کر آئے تھے۔

لوئر دیر کے میدانی قصبے میں مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک افراد نے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قیامِ امن کے لیے سفید رنگ کے جھنڈوں اور بینرز کے ساتھ احتجاج کیا تھا جن پر قیام امن پر مبنی نعرے اور مطالبات لکھے گئے تھے۔

اس ریلی کے دو دن بعد ملحقہ وادی سوات کے خوازہ خیلہ، مٹہ اور کبل میں ایک ہی وقت ہونے والی امن ریلیوں میں بڑی تعداد میں لوگ شریک ہوئے تھے۔ اس احتجاج کے نتیجے میں مٹہ میں پہاڑی چوٹیوں پر موجود عسکریت پسند مبینہ طور پر نامعلوم مقام پر جانے پر مجبور ہوئے۔

سوات کے بعد باجوڑ کے ضلعی صدر مقام خار اور مہمند کے غلنئی، یکہ غنڈ اور گندہاب میں بھی اسی قسم کے جلوسوں کا انعقاد کیا گیا۔

گزشتہ ہفتے عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی اپیل پر شمالی پہاڑی ضلع بونیر کے دور افتادہ علاقے امازئی کے مرکزی تجارتی مرکز نگرئی میں اس وقت امن ریلی نکالی، جب غیر مصدقہ معلومات کے مطابق 30 سے 35 مبینہ عسکریت پسندوں نےمقامی سڑک پر گشت کیا تھا۔

قبائلی ضلعے خیبر کے صحافی عزت گل آفریدی نے وائس اف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان کے سرحد سے منسلک وادی تیراہ میں چند روز قبل بعض عسکریت پسند نظر آئے تھے جس پر امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور خدشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ’خیبر سیاسی اتحاد‘ کے پلیٹ فارم سے ’خیبر امن مارچ‘ کیا گیا۔

مختلف دیہات اور علاقوں سے جلوسوں کی شکل میں آنے والی ریلیوں نے باڑہ بازار میں جلسے کی شکل اختیار کی۔ جلسے سے جماعت اسلامی، تحریکِ انصاف، اے این پی اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سمیت مختلف جماعتوں کے مقامی رہنماؤں اور نمائندوں نے خطاب کیا۔

مقررین کا کہنا تھا کہ علاقے میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کے واقعات کا نوٹس لیا جائے جب کہ بدامنی کے روک تھام کو یقینی بنایا جائے۔

سابق وفاقی وزیر اور قبائلی رہنما ملک وارث خان نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی عوام نے اپنی آنکھوں سے گھروں کو تباہ ہوتے اور اجڑتے ہوئے دیکھا ہےجب کہ ہر قسم کے حالات میں پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کیا ہے۔اب قبائلی عوام چاہتے ہیں کہ جس طرح سندھ، پنجاب اور اسلام آباد میں امن ہے۔ اسی طرح قبائلی اضلاع میں بھی امن قائم کیا جائے۔

جماعت اسلامی کے رہنما مومن خان آفریدی نے خیبر امن مارچ سے خطاب میں کہا کہ ان کا حکومت اور اداروں سے ایک ہی مطالبہ ہے قبائل کے عوام پرامن لوگ ہیں اس لیے ان کو پر امن ہی رہنے دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست کی مزید ایسی پالیسیوں کا شکار نہیں ہونا چاہتے کہ جس میں نوجوانوں کی نسل کشی ہو جب کہ تعلیمی ادارے، سڑکیں، تجارت اور گھر بار تباہ ہو جائیں ۔

’خیبر امن مارچ‘ کے آخر میں تمام شرکا نے متفقہ طور پر حکومت پاکستان اور اداروں سے مطالبہ کیا کہ ضلع خیبر میں امن و امان کی صورت حال کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

مختلف علاقوں میں مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کے منظر عام پر آنے اور سرگرمیاں شروع کرنے کے خلاف جاری امن ریلیوں پر خیبر پختونخوا کی حکومت کا کوئی واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔

خیبرپختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ جہاں بھی عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہے، پولیس سمیت تمام سیکیورٹی ادارے ان کے خلاف کارروائی کرتے رہتے ہیں۔

دوسری جانب بیرسٹر محمد علی سیف دعویٰ کرتے ہیں کہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ حکومت کا جنگ بندی کا معاہدہ برقرار ہے البتہ پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان اور لکی مروت میں گزشتہ دو دن کے دوران ہونے والے حملوں کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے ہی قبول کی ہے ۔ان حملوں میں ایک سیکیورٹی افسر سمیت دو اہل کار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے جاری کردہ بیان میں ان حملوں کی وجہ اپنا دفاع قرار دیا جا رہا ہے۔

ان واقعات میں پولیس یا سیکیورٹی اداروں کی جانب سے کسی قسم کی جوابی کارروائی کے بارے میں کسی بھی قسم کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں۔