دودا : ایک جائزہ ۔ عابد میر

314

دودا : ایک جائزہ

تحریر: عابد میر

دی بلوچستان پوسٹ

یہ پہلی بلوچی فیچر فلم ہے جو بڑے پردے پر پیش ہو رہی ہے، یہ اس فلم کا پہلا اختصاص ہے۔ یہ فلم ڈبل ورژن یعنی بیک وقت بلوچی اور اردو میں پیش ہو رہی ہے، یہ اس کا دوسرا اختصاص ہے۔

اس کے علاؤہ بھی کئی خوبیاں ہیں جو اسے دیکھنے کے قابل بناتی ہیں۔ میں بہ طور ایک فلم بین کے یہاں چند نقاط پیش کرتا ہوں:

پلاٹ:
فلم کی کہانی لیاری نشین ایک نوجوان کے باکسر بننے کی جدوجہد کے گرد گھومتی ہے۔ اس کی چھوٹی بہن اس جدوجہد میں اس کی ساتھی ہے۔ نشے کا عادی باپ ایک رکاوٹ ہے۔ چھوٹی بہن جہاں پڑھتی ہے، وہاں کی سکول ٹیچر کے ساتھ اس کا افیئر ہے۔ باکسنگ کلب کا استاد نورو اس کا مینٹور ہے۔ مخالف کلب کا ایک استاد اسے ورغلا کر پہلے اپنے ساتھ ملاتا ہے اور پھر نشے کی دلدل میں گرا دیتا ہے۔ یہ کہانی کے مرکزی کردار ہیں۔ اس کے علاؤہ فیکٹری کا ٹھیکیدار، اس کا دست راست قاسم، دودا کے ساتھ کام کرنے والا صابر، کینٹین کا چھوٹو پاکٹ، ہیروئن کے والدین وغیرہ کہانی میں ضمنی کردار ادا کرتے ہیں۔

خوبیاں:
1۔ پلاٹ سادہ مگر گتھا ہوا ہے۔ کہانی حال سے شروع ہو کر فلیش بیک کی صورت تین سال پیچھے جاتی ہے اور پھر ماضی و حال کو جوڑ کر ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ ہلکی پھلکی کامیڈی اور سسپنس کہانی کو بوجھل نہیں ہونے دیتے۔

2۔ اداکاری کا شعبہ مجموعی طور پر اچھا مگر کہیں کہیں ڈھیلا ڈھالا بھی ہے۔ ہیرو، ہیروئن، ہیرو کی چھوٹی بہن، استاد نورو مرکزی اور مضبوط کردار ہیں۔ مختصر کردار میں آنے والے لیجنڈ بلوچی ہیرو انور اقبال صاحب نے خوب انصاف کیا۔ کاش انہیں کوئی بڑا کردار دیا جاتا۔ ہیروئن کے والد کی اداکاری بہت کمزور رہی۔ کینٹین کے چھوٹو، پاکٹ اور باکسر ولن کے طور پر آنے والے نوجوان نے بھی مختصر مگر اچھا کردار نبھایا۔

3۔ میوزک بلوچی میں تو اچھا تھا ہی، اردو میں بھی بہت اچھا رہا۔ لیرکس، انسٹرومنٹس، آواز سب کا تال میل انتہائی خوب ہے۔ کہیں سے نہیں لگتا کہ یہ کسی بلوچی فلم کے گیت ہیں۔ یہ بالکل الگ سے اوریجنل اردو سانگ محسوس ہوتے ہیں۔ فلم کا اردو میوزک الگ سے ریلیز ہو تو یہ ایک اور کامیابی سمیٹ سکتا ہے۔

4۔ باکسنگ کے موضوع پر مبنی ہونے کے باعث فلم میں ایکشن سیکونس بھی خاصی تعداد میں ہیں اور یہ سب مناسب انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔ سوائے، فیکٹری کے ٹھیکیدار کے جو باکسر کی طرح ہی ہیرو کے منہ پر مکے مار رہا ہوتا ہے، یہ طرز انتہائی غیر مربوط محسوس ہوا۔ فلم کا آخری سین ایکشن سین ہی ہے اور وہ شاندار طریقے سے فلمایا گیا ہے۔

5۔ فلم میں ڈرون کیمرے اور ٹرالی کا زبردست استعمال ہوا ہے۔ سوائے ایک آدھ سین کے، ڈرون کیمرے پہ کیمرہ مین اور ڈائریکٹر کی گرفت قابلِ داد ہے۔ ٹرالی شاٹس نہایت جدید انداز میں فلمائے گئے ہیں۔

خامیاں:
1۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ ایک آدھ جگہ اداکاری کا شعبہ کمزور محسوس ہوا۔ اس پہ توجہ دینی چاہیے تھی۔ ہیروئن کے والد کی نسبت ہیرو کے والد کا کردار تو مضبوط تھا لیکن کہانی کے آخری حصے میں یہ یکدم غائب ہو جاتا ہے۔ ایک آدھ سین یا ڈائیلاگ کے ذریعے ہی اس کا انجام دکھایا جا سکتا تھا۔ اسی طرح صابر کا ساحل سمندر پہ پہلا سین بے جا طوالت کا شکار کر بور کرنے لگتا ہے۔ اسے کم کیا جا سکتا تھا۔

2۔ پہلا گیت (ما کٹیں) میں کوریوگرافی کی شدید کمی محسوس ہوئی۔ حالاں کہ لیاری رقص و موسیقی کا مرکز ہے۔ یہاں اداکاروں کا رقص انتہائی کمزور ہے۔ یہ کمی لیوا وغیرہ کی صورت پوری کی جا سکتی تھی۔ کوئی لوک گیت ڈال کر اس پہ روایتی رقص دکھا دیا جاتا تو لیاری کا ایک عکس بھی آ جاتا اور کوریوگرافی کی کمی بھی پوری ہو جاتی۔

3۔ اسی طرح شروع کے سین میں عید کا تذکرہ تو ہوتا ہے مگر کہیں بھی عید دکھائی نہیں دیتی۔ اس میں ذرا سی محنت ہوتی لیکن ایک ڈیڑھ منٹ کے سین میں لیاری کی عید دکھا دی جاتی تو اسکرین پر زبردست رنگ نظر آتے۔ کوئی عید نماز، کوئی عید گاہ، کوئی چاند کا منظر، کوئی گلے ملتے لوگ… کچھ تو ایسا دکھایا جاتا کہ اسکرین پر عید کا سماں محسوس ہوتا۔

4۔ ایک عجب بات یہ محسوس ہوئی کہ کہانی کے فلیش بیک اور حال میں صرف تین سال کا وقفہ ہے لیکن دودا کی واپسی پر ہیرو سمیت سب کی داڑھیاں آ چکی ہوتی ہیں۔ ہیرو کی داڑھی کا تو چلیں کچھ جواز بنتا ہے تاکہ اس کے ظاہری حلیے سے وقت کا احساس دلایا جا سکے لیکن نورو استاد کا ہلکا سا فرنچ کٹ، دوسرے استاد کی سفید ریش، حتیٰ کہ کینٹین کے چھوٹو پاکٹ کی بھی اچھی خاصی داڑھی دکھانے کا کوئی جواز سمجھ نہیں آیا۔ پاکٹ کی داڑھی تو بالکل ہی غیرضروری اور عجیب محسوس ہوئی۔ تین سال میں سب کو داڑھی رکھنے کا شوق کیوں چرایا؟ یہ میں فلم دیکھتے ہوئے بھی سوچتا رہا۔

5۔ سب سے بڑی کمی جو مجھے محسوس ہوئی وہ لیاری کے رنگوں کی ہے۔ رنگا رنگ لیاری میں گینگ وار کا تذکرہ چلیے احتیاطاً نہ کرنا مناسب ہو سکتا ہے، لیکن لیاری کے فٹبال کا رنگ تو دکھایا جا سکتا تھا، لازماً دکھانا چاہیے تھا۔ لیاری میں نشے کی لت تو دکھائی گئی (جو کہانی کی ضرورت بھی ہے) مگر اسی لیاری میں آرٹ، لٹریچر اور کلچر کے جدید رنگوں کا کوئی تذکرہ نہیں۔ کوئی ایک آدھ گیت کسی بہانے شادی بیاہ کا رکھ لیتے تو لیاری کے کئی رنگ اس ایک گیت کے بہانے دکھائے جا سکتے تھے۔

ڈبل ورژن:
فلم کا اصل بلوچی ورژن تو زبردست ہے ہی، اردو ورژن بھی باکمال ہے۔ کیوں کہ اصل کرداروں نے ہی ڈبنگ کی ہے، اور اکثریت لیاری نشینوں کی ہے، اس لیے کہیں بھی ڈبنگ کا گمان نہیں ہوتا۔ سوائے ایک آدھ جگہ تذکیر و تانیث کی غلطی کے جو لیاری کی اردو میں یوں بھی روا ہے۔ اصل ورژن پہ یہ اعتراض سننے میں آیا کہ بلوچی کا “خالص لہجہ” استعمال نہیں ہوا، اور اردو زدہ بلوچی استعمال ہوئی ہے۔ میں خوش قسمتی سے بلوچی کے سارے ڈائلیکٹ سمجھ لیتا اور اکثر بول بھی لیتا ہوں اس لیے مجھے تو اس نے لطف دیا۔ شہری بلوچی لہجہ یہی ہے، فلم کے پس منظر اور پلاٹ کے لحاظ سے یہ بالکل درست ہے۔ یہی فلم مکران میں بنتی تو یقیناً اس کا لہجہ مختلف ہوتا، کوہ سلیمان میں بنتی تو اور بھی مختلف ہوتا۔

حرفِ آخر:
آج کی فلم کی دنیا میں فلم کا مالک کل ڈائریکٹر کو سمجھا جاتا ہے، ان معنوں میں “دودا” حقیقی طور یہ ڈائریکٹر عادل بزنجو کی ہی فلم ہے۔ فلم کا سب سے مضبوط شعبہ ڈائریکشن ہی ہے۔ سب سے زیادہ نمبر اور سب سے زیادہ داد بھی اسی کی بنتی ہے، اس کے بعد میوزک اور پھر اداکاری۔ ڈائریکٹر نے کم ترین وسائل کے باوجود جدید فلم سازی کے ٹولز کا بہترین استعمال کیا ہے۔

مجموعی طور یہ بلوچی فلم سازی کی طرف ایک بڑی جست ہے۔ اب تک بلوچی فلمیں کیسٹس یا سی ڈیز کی صورت پیش ہوتی رہی ہیں، جب کہ فلم دراصل بڑی اسکرین کی چیز ہے۔ دودا نے بلوچی فلموں کا بڑے پردے کی طرف راستہ کھول دیا ہے۔ البتہ مستقبل میں بلوچ فلم سازوں کو صرف اپنی زبان پر توجہ دینا ہے یا اردو ورژن بھی ساتھ میں لانا ان کے لیے ضروری ہو گا؟ یہ ایک سوالیہ نشان بھی ہے اور امتحان بھی۔ اس لیے کہ فلم کو اب تک ریسپانس بلوچی بولنے والوں اور بلوچ حلقوں سے ہی ملا ہے۔ اردو ڈبنگ ہونے کے باوجود اردو کے شو اب تک ناکام رہے ہیں۔ اردو فلم بینوں کا یہ رویہ بالآخر بلوچی فلم میکرز کو یہ سوچنے پہ مجبور کر سکتا ہے کہ اگر ریسپانس یہی ہے تو اتنی محنت کس لیے کی جائے!

آخری بات یہ کہ “دودا” بلوچ فلم سازی کی طرف ایک ایسا قدم ہے، جس کے نقش قدم تادیر موجود رہیں گے۔ مستقبل کے بلوچی فلم ساز اس گراں قدر تجربے کو نظرانداز نہیں کر پائیں گے، وہ یقیناً اس سے مستفید ہوں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں