دعا جیسی سمی
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
اُس کی عمر ہی کیا ہے؟اس عمر میں تو لڑکیاں اپنے ہاتھوں میں سبز چوڑیوں کی کھنک محسوس کرتی ہیں اوران کے دل میں شادمانے بجتے ہیں۔ وہ روز قد آور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے چہرے کی رنگت کو بنتے بگڑتے دیکھتی ہیں۔صحت میں بے فکری اور رنگت کی فکر کھائے جا تی ہے۔ چہرہ ہاتھ اور پیروں کو چاند رنگ پر رنگا جاتا ہے۔آکاش میں چاند اور دھرتی پر سکھی کے پیر،ہاتھ اور منہ چمکتا رہتا ہے۔ دل کے تار بجتے ہیں اور کانوں میں محبت کے گیتوں کا رس گھلتا ہے۔اس عمر میں چاند سے عشق اور پھولوں سے محبت ہو جا تی ہے۔اور خوشبو گھر کی لونڈی بن کر رہ جاتی ہے۔تتلیوں کے رنگ،چاند کی روشنی اور پھولوں کی خوشبو جسم میں بھر جاتی ہے۔جسم محبت کی خوشبو سے بھر جاتا ہے۔ تاروں سے محبت اور برستی شبنم اچھی لگتی ہے۔ بارش میں تنگ چولہے کو بھگونے کو دل کرتا ہے اور جب بارش کی بوندیں خوبصورت جسم پر گرتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے دنیا ہی نہیں پر دل میں بھی محبت کا جنم ہو رہا ہے۔آکاش میں چمکتے تارے ایسے محسوس ہو تے ہیں کہ بس جیسے ہی ہاتھ بڑھایا جائے گا وہ ہاتھ تاروں کو چھو لے گا۔دنیا حسین لگنے لگتی ہے۔ایسی عمر جس عمر کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”سکھی پیا کے ملیں تہ چئے جاں،چاندنی تو سوا نہ تھیندی!“
”سکھی پیا سے ملو تو کہنا،چاندنی تم بن نہ ہوگی!“
ایسی عمر جس عمر میں یا تو باغی ہوا جائے،آدرش واد!
ایسی عمر میں وہ ماؤں کی ماں ہوئی ہے۔
وہ مائیں جن کی عمریں درد دل اور غم آنسوؤں کی طرح طویل ہیں
وہ مائیں جو منتظر دید لیے دل بے کساں کے ساتھ رُل رہی ہیں
وہ مائیں جو اپنے بچوں کے چہرے بھول رہی ہیں
وہ مائیں جو مسافر بھی ہیں اور سفر بھی ہیں
وہ مائیں جو نیند بھی ہیں اور رت جگے بھی ہیں
وہ مائیں جو درد کا گیت بھی ہیں اور طویل خاموشی بھی
وہ مائیں جو من کی بارش بھی ہیں اور دل کا (سوکھڑو) بھی
وہ مائیں جو محبت کا گیت بھی ہیں اور دیوارِ گریہ کا آنسو بھی
وہ مائیں جو من مندر کا دیا بھی ہیں اور دل میں بجتا بجھن بھی
ان مقدس ماؤں کے لیے سمی دعا بن کر نازل ہوئی ہے۔مجبور،لاچار،بے کس مائیں تو دل کے گیت کی طرح بج کر خاموش ہو جا تی ہیں پھر مندروں کے دئیوں کی طرح جلنے لگتی ہیں،پر اگر یہ دعا جیسی سمی بلوچ نہ ہو تی تو دردوں کے بن میں یہ مائیں اپنا جیون کیسے بھگت تی کون جانیں؟
دیس کی مائیں درد میں ہیں تو ان ماؤں کو مولا نہ درد کے درمیاں دلاسہ دینے کے لیے بخشی بھی سمی ہے
وہ سمی جو ریت بھی ہے،صحرا بھی ہے۔لیلہ بھی ہے۔قیس بھی ہے۔ان بلوچ ماؤں کو جلتا دل اور بجھتی آنکھیں دیکھ کر شال کی گلیوں میں اُڑتی ہوئیں بھی کہتی ہیں کہ
”ریت کو ساتھ اُڑاتی ہوئی کہتی ہے ہوا
ہم سفر دے تو کوئی قیس سا صحرائی دے“
تو اتنی کم عمری میں سمی دعا بن کر ان ماؤں کے درمیاں نازل ہوئی ہے۔جو مائیں بہت رنجیدہ ہیں۔جو آنکھوں سے کیا دل سے رو رہی ہیں۔جن ماؤں کے دلوں نے غم کے سیکڑوں سورج طلوع ہو تے اور ڈوبتے دیکھے۔پر وہ اپنے محبوب سے نہیں مل پائیں۔ایسا نہیں کہ سمی بس دعا بن کر یسوع کی ماند اتری ہے،پر یسوع سے پہلے سمی موسیٰ بھی ہے۔اور اس موسیٰ کا اپنا دل بھی ہے اور اس دل میں درد بھی ہے۔اپنی آنکھیں بھی ہیں اور ان آنکھوں میں طویل انتظار بھی ہے۔
موسیٰ سے یسوع تک کا سفر۔اور سبز چوڑیوں کی کھنک سے دلاسے کا سفر،اور دلاسے سے دعا تک کا سفر بس کچھ لمحوں میں طے نہیں ہوا۔اس کے لیے سمی ہونا ضروری ہے اور سمی کا دل ہونا اس سے بھی زیادہ ضروری!
”خدا نے موسیٰ سے کچھ تو کہا ہے
جانے میں چلن اور تھا آنے میں چلن اور۔۔۔۔۔۔“
سمی کو درد نے دعا بنا دیا ہے۔پر جب آج سے تیرہ سال پہلے سمی دعا نہیں تھی
تو دیوارِ گریہ بھی نہیں تھی
دل میں درد بھی نہیں تھا
پیروں میں دھول بھی نہیں تھی
منتظر دید بھی نہیں تھی
سفر بھی نہیں تھا اور دھول آلود جوتیاں بھی نہیں تھیں
شال کی گلیوں میں بے سود سفر بھی نہ تھا
اور اور اور اور۔۔۔۔۔۔۔ہمارے کانوں میں سمی کا نام بھی نہ تھا
اور اب؟
بوڑھی ماؤں کے درمیاں
ایک چاند سی دعا ٹھہری ہوئی ہے
ضعیف ہاتھ اُٹھتے ہیں
اور یہ دعا ان ہاتھوں کو تھام لیتی ہے
چوم لیتی ہے
بوڑھی مائیں جن کے دل ان الفاظوں مثل ہیں کہ
”درداں دی ماری دلڑی علیل اے!“
تو یہ چاند سی دعا آگے بڑھ کر ان کے ماتھے چوم لیتی ہے
بہت سے درد کے درمیاں
دلِ آسودہ کو سمجھانے کے لیے
روتی آنکھوں کو ہنسانے کے لیے
ڈوبتے دلوں کو سہارہ دینے کے لیے
یہ مشکے سے آئی ہے
جب سمی روتی ماؤں کے نینوں کو چومتی ہے
تو ان ماؤں کے ماتھے پر پھول کھل آتے ہیں
بھلے درد کی شاموں میں
درد کی راتوں میں
درد کی صبحوں میں کچھ بھی نیا نہ ہو
پر یہ دعا نئی ہے
نقشِ پا مریم کی ماند
عصائے کلیم کی ماند
صدائے انا الحق کی ماند
سرمد کے عشق کی ماند
جسے دیکھ کر
یوں لگتا ہے
سمی زوال کے دنوں میں
کمال کی دعا ہے
سمی ایسی دعا ہے،جس کے لیے گرو ٹیگور نے لکھا تھا کہ
”تم ہی نے مجھے بنایا ہے کہ میں دوسری آنکھوں کے آنسو اپنے ہاتھوں سے خشک کرتی پھروں
ان کمزور ہاتھوں میں شکتی ہی کتنی ہے؟
پر پھر بھی یہ ہر بار اُٹھتے ہیں اور آبدیدہ نینوں کو خشک کرتے ہیں
میں تو بانس سے بنی ایک چھوٹی سے بانسری ہوں
پر آپ نے اس بانسری کو سروں سے بھر دیا ہے
اور میں ہر بار روتے دلوں کو نئے سنگیتوں سے بھر دیتی ہوں!“
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں