خاران میں تعلیمی انقلاب کی صدائیں
تحریر: عامر نذیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کسی بھی معاشرے کے بنیادی ضروریات کو ازل سے دیکھا جائے تو تعلیم و علم ہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جس نے انسان کو جاہلیت سے نکال باہر کرنے کے بعد انسان سمیت معاشرے میں پائے جانے والے ہر جاندار کی فلاح وبہبود کیلئے ان کی اہمیت کو دنیا بھر میں اجاگر کیا۔ چونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ تعلیم سے دوری اختیار کرنے والی قومیں آج گمنامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں انہیں اجتماعی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات عزیز تر ہیں۔ ان میں سے تاریخ کے اوراق میں بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں ریڈ انڈین قبیلہ سرفہرست ہے جو اپنی ہی دھرتی پر لاوارث کہلائے گئے۔
گزشتہ ستر سالہ محرومیوں کا الٹ پلٹ کر جائزہ لیا جائے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیشہ سے استحصالی طبقات نے عام عوام کو جہالت کے اندھیرے میں دھکیلنے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کردیں۔ نوآبادیاتی نظام کے تحت قدیم باشندوں کو فکری اور شعوری طور پر گھپ اَندھیرے میں دھکیلنے کی کوشش میں نوجوانوں کو سماج میں ذہنی بانجھ پن کا شکار بناکر مختلف ہتھکنڈوں سے پوری طرح ناکارہ بنادیا جاتا ہے تاکہ زمین کے اصل مالک اپنی قومی شناخت سے بے حال ہو کر سطحی مسائل میں الجھ کر تشخص کی جنگ سے مکمل طور پر لاتعلق اور قوم کے بنیادی عقائد کو سرے سے ہی اپنی بدقسمتی گردانتے ہیں۔
چند سال قبل خاران میں جب یونیورسٹی آف بلوچستان کے سب کیمپس بنانے کا فیصلہ کیا گیا کہ ان تمام محرومیوں کا بھرپور ازالہ کیا جائے گا لیکن صد افسوس لاکھوں کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا رخشان ڈویژن جو وسائل و قدرتی معدنیات سے مالا مال چار اضلاع پر مشتمل ہے۔
پورے رخشان ڈویژن میں تعلیمی اداروں کو انگلیوں پر گِنا جاسکتا ہے جب کیمپس بنانے کا اعلان ہوا تو یقیناً تمام طبقہ ہائے فکر کے افراد نے بھرپور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمارے گھر کی دہلیز پر ہی تمام سہولتیں میسر ہوں گی لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے پانچ سال گزرنے کے باوجود سب کیمپس خاران و نرسنگ کالج خاران تعلیم، تربیت اور سماج میں علم کی روشنی پھیلانے کے بجائے کمرشل ادارہ بن چکا ہے۔ وائس چانسلر (یو او بی) سمیت کیمپس ڈائریکٹر کا بنیادی اغراض و مقاصد خاران کے غریب طلبہ و طالبات سے پیسہ بٹورنے کا دانستہ کوشش ہیکہ خاران سے تعلق رکھنے والے افراد بکھرے ہوئے موتی مانند ایک تسبیح کی شکل میں علم و شعور سے لیس ایک قوت کے صورت میں استحصالی طبقات کی فرعونیت کو خاران کی سرزمین میں ہمیشہ کیلئے کہیں زمین بوس نہ کردیں۔
اس ناختم ہونے والے جبر و ظلم کا داستان کی کڑیاں ابھی تک جاری وساری ہیں جس کا واضح ثبوت گزشتہ ادوار میں منظور کی جانے والے کیڈٹ کالج خاران، پولی ٹیکنیک کالج خاران سمیت دیگر ادارے ہنوز اپنے تکمیل کیلئے کسی مسیحا کے منتظر ہیں جبکہ رخشان یونیورسٹی، رخشان میڈیکل کالج کے قیام کیلئے جو قرارداد پیش کیا گیا وہ بدقسمتی سے اسمبلی کے لمبی عمارتوں میں کہیں گم ہوچکا ہے۔ خواتین کیلئے نرسنگ کالج کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن وہ بھی حسب معمول طالبات کے قیمتی وقت کو ضائع کرنے کے علاوہ کسی کام کا نہیں رہا۔ اس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ضلع بھر کے بنیادی باشندوں کو دانستہ طور پر دیوار سے لگانے کیلئے بھترین حکمت عملی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خاران کے بنیادی باشندے دیگر صوبوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے اپنے گھر کی دہلیز پر ہی مادری زبانوں میں تعلیم سمیت تمام سہولتوں سے استفادہ کریں لیکن افسوس ستم بالائے ستم سول سوسائٹی کے علاوہ کسی سیاسی پارٹی، تنظیم و دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے گزشتہ ایک دہائی سے خاران کے نوجوانوں کو ذہنی طور پر مکمل بانجھ بنانے کی پالیسیوں پر کبھی لب کشائی کی زحمت کیوں نہیں کی۔
کسی بھی معاشرے میں نوجوانوں کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا ہے چونکہ سیاسی و علمی شعور سے لیس نوجوان نسل استحصالی طبقات کے سامنے بھکاریوں کا کردار ادا کرنے کے بجائے اپنی تمام توانائیاں اجتماعی مفادات کیلئے صرف کرتے ہوئے سماج میں کسی بھی تبدیلی سے گریز نہیں کرتے ہیں موجودہ صورتحال کے تناظر میں سول سوسائٹی کے ساتھیوں کی ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا کسی معجزے سے قطعاً کم نہیں چونکہ معمولی حالات میں غیر معمولی حالات پیدا کرنا معمولی انسان کے بس کی بات نہیں۔ خاران کی تاریخ میں (تعلیم دو) کی تحریک گیم چینجر ثابت ہوگا خاران میں تعلیمی انقلاب برپا کرنے کی تحریک میں بلوچ خواتین سمیت ننھی پری سنج بلوچ نے تاریخی جدوجہد کرتے ہوئے خاران کی سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جس کے اثرات یقیناً مستقبل قریب میں مزید شدت کے ساتھ برآمد ہوں گے۔ خاران کی قدیم فرسودہ سیاسی روایات کو جڑھ سے اکھاڑنے کیلئے سول سوسائٹی خاران کی تحریک نوجوانوں کیلئے سبق آموز کہانی رہے گا۔ اس تحریک سے وابستہ ہر فرد کا کامل ایمان ہیکہ یہ بازی ہمارے نسلوں کی بازی ہے یہ بازی ہم ہی جیتیں گے خاران سمیت پورے رخشان ڈویژن میں تعلیمی انقلاب کے زریعے علم و ادب کا گہوارہ بناکر ہی سکون کا سانس لیں گے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں