حسین اور تلخ یادوں کا طویل سفر – آڑچن زہری

255

حسین اور تلخ یادوں کا طویل سفر

تحریر: آڑچن زہری

دی بلوچستان پوسٹ

ان انگنت یاداشتوں میں زندگی کی سانسیں اور سنگتوں کے فرائض کی ادائیگی کے داستان باقی رہ گئے ہیں۔ کئی مہربان، کئی ہمنوا، کئی جگری یار جو چلے گئے ہیں۔ کچھ تو آج بھی زندانوں کی زنگ آلود زنجیروں کو جھنجھوڑ کر آزادی کی ساز چھیڑ رہے ہیں۔ ان ہی سازوں سے دوستی کی، یاری کی، مہر ومخلصی کی ساز بجتے ہیں۔

ہر وقت ان دوستوں کی یادیں ہی زندگی جینا آسان کرتے ہیں۔ ان زنجیروں کی کنکھار کو زبان دے کر گیت گاتے ہیں، جو ہماری کانوں سے ہوکر روح کو ریزہ ریزہ کرتے ہیں۔

وہ پیار بھری داستانیں پھر ہم گایا کرتے ہیں
ایک شکوہ سا کرتے ہیں
کچھ زور سے روتے ہیں
جو شہید ہوئے سنگت ان کے لیے
اور زور سے ہنستے ہیں، اُن پر بھی جو سجدہ ریز ہوئے
وہ بندوق کو اُسی سرکار کے حوالے کردیئے جو بندوق
جس سرکار سے اُس کی حفاظت کیا کرتا تھا۔

وہ پہاڑ، ہر تلار، درخت اور جانور جو اس سرنڈر شدہ کے لئے مشعل ہوتے، بستر بن جاتے اور ندیاں میٹھے شہد جیسے ہوتے تھے اور تم چند مراعات کیلئے گلزمین سے بے وفائی کرتے ہو۔
اور شہیدوں کی لمبی لکیر
اور ان سب سے جڑا رشتہ ان کی یادوں کے ہزاروں لاکھوں صفحوں پہ بے تحاشہ تحاریر۔۔۔

دل بہت کچھ چاہتا ہے کہنے کو لکھنے کو تم سب سے، مگر کس سے شروع کروں، کس بات کو لکھوں کہ کوئی یاد تازہ ہوجائے۔

کونسی شرارتوں کے داستان کو چھیڑا جائے
اسی لیے میں سب سے کچھ کہہ نہیں پاتا، تم سب سے میں باری باری مل کر دیوان کرنا چاہتا ہوں۔

وہی خلوص، رشتہ، وہی مہر اور وہی لاڈ پیار محسوس کرنا چاہتا ہوں
جو ہم کبھی پہاڑوں میں سفر کرکے کیا کرتے تھے۔
سختیوں میں حوصلہ بنتے تھے
مشکلات سے نکل کر خوبصورت فضاء میں جو سب دوستوں کے مسکراہٹ بِشخندہ وہ سب آج میں بھول نہیں پارہا
وہ جو تلخ یادوں کے طویل داستان ہیں
میں ان میں ڈوبنا نہیں چارہا
ہر وقت ہمیشہ
تم سب پرسکون ہو
تمہارے ساری ذمہ داریاں، بار اور بوجھ ہمارے اوپر ہیں
مل کے تسلی سے دیوان کرینگے اور پھر وہ دیوان ہمیشہ رہنے والا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں