بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا چوتھا مرکزی کمیٹی اجلاس منعقد

361

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا چوتھا مرکزی کمیٹی اجلاس مرکزی چیئرپرسن کے زیر صدارت کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں سابقہ کارکردگی ، تنقید برائے تعمیر، تنظیمی امور اور عالمی و علاقائی صورتحال پر سیر حاصل بحث کے بعد آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے میں تنظیمی سرگرمیوں کو آگے لے جانے کےلیے مختلف فیصلے لیے گئے۔

اجلاس کے پہلے ایجنڈہ سابقہ کارکردگی میں سیکرٹری جنرل نے سنٹرل کیمٹی کے سامنے گزشتہ کارکردگی پیش کیا اور تنظیم کی جانب سے قائم کردہ لٹریچر کمیٹی ، میڈیا کمیٹی، فنانس کمیٹی اور لٹریسی کیمپین کمیٹی نے اپنے رپورٹ پیش کیا۔ تنظیم نے گزشتہ دورانیے میں بلوچستان کے مختلف شہروں میں ادبی و سیاسی تقریبات کا انعقاد کیا اور نوشت میگزین کے ساتھ دیگر لٹریچر کارکنان کو مہیا کی گئیں۔اس کے علاوہ طلباحقوق کےلیے جدوجہد اور بلوچستان میں تعلیمی بہتری کے لیے تنظیم نے جدوجہد کو جاری رکھا۔ قدرتی آفت کے باعث بلوچ علاقہ جات میں ہونے والی نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے تنظیم کی جانب سے فلڈ ڈونیشن کیمپین کا انعقاد کیا گیااور بلوچ قوم کی تعاون سے بلوچستان کے بیشتر متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچانے میں کامیاب رہی ہے۔اس کے علاوہ تمام تر زونوں کی کارکردگی اور اُن کی فعالیت کو بھی زیر بحث لایا گیا۔ اجلاس کے دوسرے ایجنڈے تنقید برائے تعمیر کے ایجنڈے میں تنظیمی سرگرمیوں میں ہونے والی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو زیر بحث لایا گیا۔

اجلاس کے تیسرے ایجنڈہ تنظیمی امور میں تمام تر تنظیم معاملات کو زیر بحث لایا گیا۔ تنظیمی امور کے ایجنڈہ پر چیئرپرسن نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آج ایک منظم طلبا تنطیم کے حیثیت سے بلوچ طالبعلموں کی ترجمانی کر رہی ہے۔ تنظیم نے نہایت ہی قلیل عرصے میں ایک ایسے اساس کی حیثیت اختیار کی ہے جو بلوچ نوجوانوں کو نہ صرف ایک پلیٹ فارم پر یکجا کر رہی ہے بلکہ سرکلنگ اور لٹریچر کے بدولت طالبعلموں کی سیاسی و شعوری تربیت کر رہی ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے سیاسی و علمی تربیت پانے والے کارکنان بلوچ سماج کے مستقبل کا ضامن ہیں اور یہیں نوجوان اپنی سیاسی و علمی بالیدگی کے باعث سماج کےلیے نئی اور ترقی پسند راہیں متعین کریں گی۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان میں تعلیمی نظام نہایت ہیں زبوں حالی کا شکار ہے۔ بلوچستان کا شمار ایک حصے خطے کے طور پر کیا جاتا ہے جہاں شرح خواندگی ہر سال ابتری کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔ مقتدر قوتیں ہمیشہ ہی بلوچ سماجی ساخت کے کسی عنصر کو بلوچستان میں تعلیمی نظام کی مخدوشی کےلیے مورد الزام ٹھراتے ہیں لیکن بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے تعلیم کی راہوں کو ایک منظم سازش کے طور پر بند کیا جا رہا ہے۔ آج اگر بلوچستان بھر میں تعلیمی اداروں کی تعداد پر نظر دوڑائی جائے تو اس وقت چند ایسے اعلی تعلیمی موجود ہیں جوتعلیمی تسلسل کو معیاری بنیادوں پر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن آج بھی بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں ڈگری کالج تک وجود نہیں رکھتا ہے۔بلوچستان بھر میں پرائمری سے لیکر مڈل تک کے نصف سے زیادہ اسکول بندش کا شکار ہیں اور باقی نصف فیصد معیاری تعلیم مہیا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس طرح کے حالات میں خواندگی کی شرح میں اضافے کی امید رکھنا اور تعلیم کے بغیر بلوچستان کے نوجوانوں کا جدید دنیا سے منسلک ایک خواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ انھی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تنظیم کی جانب سے بلوچ لٹریسی کیمپین کا آغاز کیا جس کے پہلے مرحلے میں بلوچستان کے مختلف اضلاع کے اسکولوں کی ریکارڈ یکجا کی گئی اور اب اسی تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے ہمیں بلوچستان بھر میں بلوچ لٹریسی کیمپین کے حوالے سے تقریبات منعقد کرنے ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ تمام زونوں کی جانب سے مختلف اوقات میں بلوچستان کتاب کاروان کے نام سے بُک اسٹال لگائے گئے جس کا مقصد بلوچستان بھر کے عوام اور بالخصوص نوجوان نسل میں کتب بینی کے ماحول کو بہتر بنانا ہے۔ کتابیں انسان کو نہ صرف اپنے ذات سے آشنا کرتی ہیں بلکہ کسی بھی سماجی اور سیاسی تبدیلی کےلیے عوام کی رہنمائی کرتی ہیں۔ لہذا تمام کارکنان کو چاہیے کہ تنظیمی ذمہ داری کے حیثیت سے وہ خود کو تنظیمی لٹریچر سے جوڑے رکھیں۔ اور اپنی علمی صلاحیتوں کو نکھارنے کےلیے کتابوں سے جڑت کو مزید مضبوط اور محکم بنا کر بلوچ نوجوانوں کی رہنمائی کریں۔ جس طرح تعلیمی اور ادبی تقریبات بلوچ سماج میں نئے مباحثوں میں باعث بن رہے تو تمام زون تقریبات کے انعقاد کا تسلسل جاری رکھیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہماری جدوجہد بلوچ سماج کی ترقی کو علم و شعور سے آبیاری کرنا ہے کیونکہ علم و شعور سے جُڑا عمل ہمیشہ ہی نتیجہ خیز ہوتا ہے۔ سیلاب کے باعث بلوچ علاقہ جات میں برپا ہونے والی آفت کے بعد تنظیمی کارکنان کا عوام کی مدد کےلیے ہونے والی جدوجہد قابل ستائش ہے۔ تنظیم نے کوہ سلیمان ، ڈیرہ جات، گرین بیلٹ ، خضدار ، نوشکی، لسبیلہ ، قلات اور مستونگ میں امدادی عمل کو جاری رکھتے ہوئے بلوچ عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ تنظیم ہر طرح کے آفت میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور شعور سے لیس ہمارے تمام تر عمل صرف آپ ہی سے منسلک ہیں۔ ہمیں بطور بلوچ طلباتنظیم اپنی جدوجہد اسی تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

اجلاس کے آخری ایجنڈہ آئندہ لائحہ میں تمام تجاویز کو زیر بحث لاتے ہوئے تنظیم پروگرام کو آگے لے جانے کےلیے نئی پالیسیاں مرتب کی گئیں۔ تنظیم کی جانب سے اعلان کردہ بلوچ لٹریسی کیمپین کے سرگرمیوں میں مزید تیزی لائی جائے اور اختتامی مرحلے میں داخل کیا جائے گا۔گزشتہ برس سے غیر فعال نوشکی زون اور سوراب زون کو عارضی طور پر تحلیل کیا گیا ۔تنظیم کے سنٹرل کمیٹی کے رکن وحید بلوچ کا استعفی اکثریت رائے سے قبول کیا گیا۔