مون سون بارشوں کا سلسلہ تھم گیا لیکن بارشوں و سیلاب سے متاثر ہونے کے باعث بلوچستان کے رہائشی مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں-
جمعہ کو بلوچستان کے ضلع دکی میں ہیضے نے دو کمسن بچیوں کی جان لے لی دکی میں ہیضے سے اب 1500 سے زائد افراد متاثر ہوئے ضلع دکی کے دو سالہ بچی عائشہ اور سات سالہ بچی جان کی بازی ہارگئے گذشتہ چند دنوں کے دوران دکی میں ہیضے سے متعلق واقعات میں مرنے والوں کی تعداد چھ ہو گئی-
دکی، لونی، تل اسماعیل اور دیگر سمیت 19 یونین کونسلوں میں ہیضے سے لوگ متاثر ہوئے ہیں محکمہ صحت بلوچستان نے اس صورتحال پر قابو پانے اور متاثرہ لوگوں کو بروقت صحت کی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ابھی تک میڈیکل کیمپ قائم نہیں کیا ہے۔ دکی کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں صحت کی ضروری سہولیات نہیں ہیں ادویات اور تربیت یافتہ ہیلتھ پروفیشنل سٹاف کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔
بلوچستان میں سیلاب بارشوں سے متاثرہ علاقے شدید قسم کی بیماریوں کا آماج گاہ بن رہے ہیں تاہم ان علاقوں میں ادویات کی عدم موجودگی کی باعث امراض پر قابو پانا مشکل ہورہا ہے جبکہ روڈ بہہ جانے اور زمینی رابطے منقطع ہونے کی باعث بڑے شہروں کی جانب علاج کے لئے سفر کرنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔
بارشوں کے بعد جہاں جہاں سیلاب کے باعث پانی کھڑا ہوا ہے وہاں مختلف قسم کی بیماریاں پیداء ہورہے ہیں سیلاب سے متاثرہ افراد جلد، گیسٹرو، ملیریا، پیٹ درد، ہیضہ و کھلے آسمان تلے رہنے کے باعث بخار میں مبتلاء ہورہے ہیں۔
دوسری جانب خضدار ضلعی انتظامیہ اور محکمہ ہیلتھ گیسٹرو وباء کی شدت کو کم کرنے کوششیں بھی ناکام رہی، چھ سو سے زائد متاثرین اسپتال لائے گئے خضدار و گردنواح میں کیسٹرو وباء سے رپورٹ ہونے والی اموات کی تعداد 20 ہے-
آفت زدہ متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر کام کرنے والے پیرا میڈیکس کا کہنا ہے جہاں جہاں سیلاب کے باعث پانی کھڑا ہوا ہے وہاں مختلف قسم کی بیماریاں پیداء ہورہے ہیں سیلاب سے متاثرہ افراد جلد، گیسٹرو، ملیریا، پیٹ درد، ہیضہ و کھلے آسمان تلے رہنے کے باعث بخار میں مبتلاء ہورہے ہیں۔
بارشوں سے بلوچستان کے درجنوں شہر و دیہات سیلاب کے نظر ہوگئے ہیں شدید بارشوں سے کچے مکانات مہندم کئی افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق صرف بارشوں سے ہلاکتوں کی270 تک پہنچ چکی ہیں جبکہ ان افراد میں بیماریوں سے متاثر یا ہلاک ہونے والے افراد شامل نہیں۔
حالیہ سیلاب سے متاثر بے گھر ہونے والے لسبیلہ کے مکین ڈائریا اور جلدی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ علاقہ مکینوں نے کہا ہے کہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور ڈاکٹروں کی کمی کے باعث متاثرین کی ہسپتالوں تک رسائی ممکن نہیں ہوسکی ہے سیلاب سے متاثر نصیر آباد کے علاقوں سمیت حب چوکی کے علاقوں میں جلدی اور آنکھوں کی کے باعث درجنوں خواتین و بچے متاثر ہوئے ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق سیلابی پانی جمع ہونے اور گندگی پھیلنے کی باعث اسہال، ڈینگی، ملیریا، جلد کے انفیکشن، معدے کے امراض اور پانی سے پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں نے بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی صحت کو سنگین خطرات پیدا کررہے ہیں جبکہ مچھروں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
بلوچستان کے فلاحی تنظیموں نے محکمہ صحت، حکومت اور عالمی اداروں سے اپیل کی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں فوری متاثرین کی بحالی کو یقینی بنایا جائے وگرنہ صورتحال مزید سنگین شکل اختیار کرسکتی ہے۔