بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں بلوچستان اسکالرز فورم کے مطالبات کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے حکومت سے پر زور مطالبہ کیا ہے کہ مادری زبانوں کو اسکولوں میں لازمی قرار دیکر اساتذہ تعینات کیے جائیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کا ادارہ یونسکو کے چارٹر میں مادری زبانوں کی تحفظ شامل ہے جبکہ ملکی کے آرٹیکل 251 کے مطابق ہر فرد کو اپنی مادری زبان میں پڑھنے اور پڑھانے کا حق حاصل ہے مگر پاکستان میں بلوچی سمیت دیگر مادری زبانوں کیلئے کوئی عملی اقدامات اٹھائے نہیں جارہے۔ قومی وحدتوں کی الگ قومی شناخت،ثقافت اور زبانیں ہیں جنکو تسلیم کرکے مکمل تحفظ دی جائے۔پاکستان میں ون نیشن ون کوریکیولم کے تحت جبراً دیگر اقوام کی شناخت اور انکی قومی زبانوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
انھوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں نوے کی دہائی میں بلوچی زبان کو سرکاری اسکولوں میں رائج کرکے بلوچی کے اساتذہ کی تعیناتی کا اعلان کیا گیا جبکہ اس کے بعد 2014 کو بھی صوبائی حکومت نے بلوچی کو اسکولوں میں رائج کرنے کا بل پاس کیا لیکن جامعہ منصوبہ بندی کی بحران سمیت حکومت عدم توجہی سے اس کام کو آگے بڑھایا نہیں جارہا تاہم اسکولوں میں بلوچی زبان کو تیسرے کلاس تک پڑھایا تو جارہا ہے لیکن اس کیلئے اساتذہ موجود نہیں ہیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ مختلف جامعات سے فارغ التحصیل بلوچی کے سینکڑوں اسکالرز ڈگری حاصل کیے ہوئے ہیں لیکن انکے خدمات کو بروئے کار نہیں لایا جارہا۔کالجز میں کئی سالوں سے ریٹائرڈ ہونے والےبلوچ کے اساتذہ کی اسامیوں کو پر نہیں کیا گیا ہے اور نہ بی ایس پروگرام کے بعد نئے اسامیاں تعینات کی گئی ہیں۔
بیان میں انھوں نے کہا ہے کہ تنظیم مادری زبانوں کی تحفظ کیلئے بلوچستان اسکالرز فورم کے تمام مطالبات کی حمایت کرتے ہوئے مطالبہ کرتی ہے کہ تمام اسکولوں میں اسے رائج کرکے اسامیوں کا اعلان کیا جائے۔