ایران خواتین پر منظم ظلم کا سلسلہ بند کرے – امریکہ

307

پولیس کی زیر حراست مہسا امینی نامی خاتون کی ہلاکت کے خلاف ایران کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے، وہیں امریکہ نے تہران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خواتین پر منظم ظلم کا سلسلہ بند کرے اور انہیں پرامن احتجاج کی اجازت دے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کو اپنی ٹویٹ میں کہا: ’مہسا امینی کو آج زندہ ہونا چاہیے تھا، اس کے بجائے، امریکہ اور ایرانی عوام ان کا ماتم کر رہے ہیں۔‘

ایران کے صوبے کردستان سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ مہسا امینی گذشتہ ہفتے تہران میں پولیس کی جانب سے گرفتاری کے بعد کوما میں چلی گئی تھیں، جس کے بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔

ان کی موت کے بعد دارالحکومت سمیت متعدد علاقوں میں مظاہرے شروع ہو گئے اور ایرانی انتظامیہ پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ مہسا کی موت دوران حراست تشدد سے ہوئی۔

اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی اپنی ٹویٹ میں ایران پر تنقید کی۔

ان کا کہنا تھا: ’ایرانی خواتین کو اپنے لباس کے انتخاب کے لیے گرفتاری اور وحشیانہ مار پیٹ کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ ایرانی حکومت پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی موت پر احتجاج کرنے والوں کی بات سنے، ان پر گولی نہ چلائے۔‘

امریکہ نے امینی کی موت پر ایران سے جوابدہی کا مطالبہ کیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ ’نامناسب‘ حجاب پہننے پر پولیس کی تحویل میں مہسا امینی کی موت انسانی حقوق کی بدترین اور شدید تذلیل ہے۔

فرانس کی وزارت خارجہ نے بھی مہسا کی موت پر شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے ان کی گرفتاری اور تشدد کی مذمت کی ہے۔

خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے ہینگاو ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کی ٹویٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیر کی شب مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ایران میں احتجاج کے دوران سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے پانچ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

ہینگاو ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے ٹوئٹر پر بتایا کہ امینی کے آبائی شہر سقیز میں سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین پر فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔ بیان میں کہا گیا کہ سکیورٹی فورسز کی براہ راست فائرنگ سے دیواندرہ قصبے میں مزید دو افراد ہلاک ہوئے جبکہ پانچواں شخص کرد علاقے دہگولان میں ہلاک ہوا۔

اس ہیومن رائٹس آرگنائزیشن نے دعویٰ کیا کہ پیر کو 75 افراد زخمی بھی ہوئے۔

تادم تحریر آزادانہ طور پر ان خبروں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

ان ہلاکتوں کی سرکاری طور پر بھی کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کا کہنا ہے کہ سات صوبوں کے متعدد شہروں میں ’محدود‘ مظاہرے ہوئے جنہیں پولیس نے منتشر کر دیا۔

سرکاری ٹی وی کا کہنا ہے کہ متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن انہوں نے ’سوشل میڈیا پر ہلاکتوں کے کچھ دعوؤں کو مسترد‘ کرتے ہوئے دو زخمی نوجوانوں کو دکھایا جنہوں نے اپنی ہلاکت کی خبروں کی تردید کی۔

امینی کی موت کی ملک گیر مذمت میں، ہیش ٹیگ #MahsaAmini کو تقریباً 20 لاکھ بار ٹویٹ کیا گیا ہے۔

پولیس نے کہا ہے کہ مہسا امینی دیگر خواتین کے ساتھ انتظار کے دوران بیمار ہوگئی تھیں، لیکن ان کے والد نے بار بار کہا ہے کہ ان کی بیٹی کو صحت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی ٹانگوں پر زخم آئے ہیں، امینی کے والد نے پولیس کو اپنی بیٹی کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

’بدقسمت واقعہ‘

اس سے قبل پیر کے روز تہران پولیس کے کمانڈر حسین رحیمی نے کہا تھا کہ پولیس پر ’بزدلانہ الزامات‘ لگائے گئے ہیں، امینی کو کوئی جسمانی نقصان نہیں پہنچا اور پولیس نے انہیں زندہ رکھنے کے لیے ’سب کچھ‘ کیا ہے۔

رحیمی نے کہا کہ ’یہ واقعہ ہمارے لیے بھی بدقسمتی کا باعث تھا اور ہم بھی مستقبل میں اس طرح کے واقعات نہیں چاہتے۔‘