ہمیں بات کرنی ہوگی کن مظالم نے شاری بلوچ کو خودکش بمبار بنایا – سینیٹر عمر فاروق

808

افسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان میں اتنے سارے واقعات ہوئے لیکن اس پر کوئی ایجنڈا نہیں رکھا گیا جبکہ یاسین ملک کے سزا پر تمام ایجنڈوں کو یک طرفہ رکھ کر بات کی جاتی ہے۔ بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں، سیکورٹی معاملات بات نہیں کی جاتی ہے۔ بات کرنے والوں کو علی وزیر کی طرح جیل میں رکھا جاتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر نوابزادہ ارباب عمر فاروق کاسی نے آج پاکستان کے سینٹ کے اجلاس موقع پر کیا۔

ارباب عمر فاروق کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں سیلاب جس سے کوئی ایسا علاقہ نہیں بچا جہاں جانی و مالی نقصانات نہیں ہوئے ہو، جہاں مال مویشی ہلاک نہیں ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے این ڈی ایم اے یا پی ڈی ایم اے نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں۔ بلوچستان میں جب کوئی زلزلہ یا سیلاب آتا ہے تو پی ڈی ایم اے وظیفہ کرتا ہے کہ مزید سیلاب آئے تاکہ وہ مزید کرپشن کریں۔ آج بھی کروڑو روپے کی فہرستیں بنی ہیں لیکن علاقوں میں امداد نہیں پہنچی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زیارت کے واقعے پر جہاں ہمارے ایک آفیسر کو اغواء کرنے کے بعد شہید کیا گیا لیکن اسکے بعد جعلی مقابلے میں لوگوں کو قتل کیا گیا، اس کے لیے جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن ہمارے ساتھی یہاں غلط بیانی کرکے کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردوں کیلئے جوڈیشل کمیشن نہیں بننی چاہیے۔

ارباب عمر نے تصاویر دکھاتے ہوئے چیئرمین سینٹ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ بلکل دیکھ سکتے ہیں کہ جتنے لوگوں کو مارا گیا ہے ان کے چہروں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے سالوں میں دھوپ تک نہیں دیکھی۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ پہاڑوں میں رہنے والے جنگجوں ہیں تو انکا کام ہی دھوپ کیساتھ ہے لیکن ان کے چہروں سے معلوم ہورہا ہے کہ انہوں نے کبھی دھوپ دیکھی ہی نہیں، قلی کیمپ سے اٹھاکر ہیلی کاپٹر سے گراکر انہیں مار دیا گیا لیکن اس پر اگر کوئی بات کرنا چاہے تو اس کو فورم نہیں دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی کے اتنے مسائل ہیں لیکن اس پر بات نہیں کی جاتی ہے۔ ہم یاسین ملک کیلئے پارلیمنٹ میں بات کرسکتے ہیں لیکن بلوچستان کے معاملات پر کوئی بات کرتا ہے تو اس کو علی وزیر کی طرح جیل میں رکھا جاتا ہے اور وہاں جیل میں بھی اس کو قتل کرنے کی سازش کی جاتی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ یہ کس طرح بلوچستان کو چلایا جارہا ہے۔ آج جو لوگ کوئٹہ میں احتجاج پر بیٹھے ہیں اسی طریقہ کار کی وجہ سے ہیں۔ بات یہاں تک پہنچی ہے کہ دو مہینے پہلے بلوچستان کی پڑھی لکھی ماں اور ایک پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھنے والی شاری بلوچ نے انہی نظریہ و پالیسیوں کی وجہ سے خودکش حملہ کیا۔

ارباب عمر نے مزید کہا کہ میں اس پارلیمان و سینیٹر صاحبان سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ ایک خطرناک بات نہیں کہ خواتین خودکش حملے کررہے ہیں جبکہ اس کو رد کرنے کیلئے کہاں جاتا ہے کہ بلوچ عورتوں کو استعمال کیا جارہا ہے لیکن ہم اس پر بات کیوں نہیں کرتے ہیں کہ یہ عورت اس نتیجے پر کیوں پہنچی ہے۔ وہ کونساظلم ہوا ہے کہ ہماری عورتیں آج یہاں تک پہنچی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں کوئی اقتدار حاصل کرنے کیلئے و کوئی اقتدار چلانے کیلئے چھلانگے لگا رہا ہے لیکن میں بلوچستان پر بات کرونگا۔ پورہ بلوچستان پانی میں ڈوبا ہوا ہے جہاں سرکار نظر نہیں آرہی، وہاں سیکورٹی کی حالت بدتر ہے کہ پتہ نہیں کیا چل رہا، کون کس کو مار رہا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان پر بات کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں ایک دن ایجنڈہ رکھا جائے۔ ہمیں اس پر بات کرنا چاہیے کہ عورتیں کیوں خودکش حملے کررہے ہیں۔ ایسے کیا حالات ہیں اور کس نے وہ حالات بنائیں جبکہ دہشت گرد انڈیا اور ٹی ٹی پی ہیں جن کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات ہورہے ہیں اور ہمارے مقامی لوگوں کو دہشت گرد بنایا جارہا ہے۔