بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے گورنر اور وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے دھرنے کو بیس دن مکمل ہوگئے۔ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے لواحقین کی کثیر تعداد موجود ہیں جو انصاف کے منتظر ہیں۔
دھرنے پہ بیٹھے لاپتہ افراد کے لواحقین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے قوم پرست جماعتیں بھی انکے لیے موثر آواز نہیں بن رہے ہیں، جن کا سیاسی بیانیہ ہمیشہ بلوچ قوم کی بقاء اور تشخص رہا ہے، آج بلوچ کے فرزند جبری لاپتہ ہیں لیکن ان کو اتنی فکر لاحق نہیں ہے، حالاں کہ دوسری طرف صوبائی حکومت کی ذمہ داران اسمبلی فلور پہ ہمارے مسئلے کی حل کے بجائے ہمیں سیاسی جماعتوں کی حمایت اور انکی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہیں –
ان کے مطابق ہمارا دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہمیں سنجیدگی سے نا سنا جائے گا، اور ہمیں یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ ہمارے پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا اور ہمارے لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے گا، ہمارے شروع دن سے یہی مطالبات رہے ہیں، ہم اپنے جائز مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھیں گے اور ساتھ ساتھ احتجاج کے تمام تر ذرائع بروئے کار لائیں گے –
واضح رہے کہ محرم الحرام کی سیکیورٹی کے پیش نظر کوئٹہ میں آج تیسرے دن موبائل فون نیٹورک بھی بند کر دیئے گئے ہیں، دھرنے میں شریک بیشتر لواحقین کی طبیعت اب خراب ہو رہی ہیں، موسم کی شدت اور بیس دنوں سے مسلسل باہر بیٹھنے اور ناقص کھانے پینے کی وجہ سے ان کو شدید مشکلات کا بھی سامنا ہے –
ان خاندانوں کو سالوں سے جبری لاپتہ اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے شدید خدشات لاحق ہیں، زیارت سانحے کے بعد یہ خدشات اور خطرات نے شدت اختیار کیا ہوا ہے اور فیملیز اپنے گھر نہیں بیٹھ سکتے –