بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے شکار لاپتہ افراد کے لواحقین گذشتہ 14 روز سے گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کو آج دو ہفتے مکمل ہوگئے جبکہ دھرنے میں مزید لاپتہ افراد کے رشتہ دار شرکت کرکے حکومت و متعلقہ اداروں نے سے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرہے ہیں۔
بدھ کے روز دھرنا مقام پر مظاہرین نے جبری گمشدگیوں کے حوالے سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں نوابزادہ حاجی لشکری خان رئیسانی، پروفیسر منظور بلوچ، وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ، ایڈوکیٹ عمران بلوچ، طاہر حبیب سمیت دیگر شریک ہوئے۔
سیمینار سے گفتگو میں مقررین نے کہا تھا کہ جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک انسانی المیہ ہے بلخصوص بلوچستان میں ایسے واقعات قومی نسل کشی کی شکل اختیار کرچکے ہیں جہاں درجنوں طلباء انکے اساتذہ اور ہر طبقہ فکر کے لوگ اس جبر کا شکار ہوئے ہیں اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے جس کا اختتام ایک طویل سخت جہدو جہد سے ممکن ہے۔
سیمینار شرکاء نے لاپتہ افراد کی جانب سے پرامن جہدوجہد پر لواحقین کو خراج تحسین پیش کی۔ مقررین کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی جہدوجہد اس ظلم کے سامنے کھڑی ہے وگرنہ ریاستی دہشت گردی مزید تباہی لاچکی تھی۔-
دھرنے میں شریک سمینیار کے شرکاء سے گفتگو میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء و جبری لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے کسی بھی جہدوجہد یا کوششوں پر ہمیں کسی کا شکر ادا نہیں کرنا چاہیے، جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ایک قومی مسئلہ ہے اور بطور قوم اسکے خلاف جہدوجہد ہم سب پر فرض ہے۔ سمینیار کے مہمان آئیں ہم سے ملیں جو دھرنے پر بیٹھے لواحقین کے لئے اچھا پیغام ہے کہ انکے ہمدرد موجود ہیں۔
سمی دین محمد کا کہنا تھا کہ میرے والد کو تیرہ سال قبل جبری لاپتہ کردیا گیا، تیرہ سال جو میرے اس پندرہ منٹ کے تقریر میں بیان نہیں ہوسکتے تیرہ سال سے والد کا انتظار کررہی ہوں، انصاف کے حصول کے لئے تمام دروازے کھٹکھٹائے پر انصاف نہیں مل سکا۔
سمی دین بلوچ کا کہنا تھا کہ والد کی جبری گمشدگی کے تیرہ سال میرے اور میرے فیملی کی تیرہ صدیوں کے جیسا ہوگئے ہیں۔
اس موقع پر لاپتہ شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیماء بلوچ کا کہنا تھا کہ آئے روز یہاں کچھ حکومت کے نمائندے آتے ہیں ہمیں جھوٹی تسلیاں دیتے ہیں۔ ایسے تسلیاں ہم سالوں سے سن رہے ہیں۔ جب ہم اپنی احتجاج کو جاری رکھتے ہیں تو ہم سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ لوگوں کے پاس گھر نہیں جو سڑکوں پر بیٹھے ہو ہمیں مختلف طریقوں سے ہراساں کرکے احتجاج ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سیماء بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم اپنے شیر خوار بچوں کے ہمراہ سڑکوں پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔ ہمارے پاس گھر ہے البتہ آپ ہمارے پیارے بازیاب کریں ہم واپس کبھی سڑکوں پر نہیں آئینگے۔
لواحقین سے گفتگو میں پروفیسر منظور بلوچ کا کہنا تھا کہ شال کے اس نکڑ پر آج بلوچ مائیں بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں البتہ ان ماؤں کی جہدوجہد اور مزاحمت صدیوں سے برقرار ہے۔ بلوچ خواتین نے ہر دور میں کسی بھی ظلم و نا انصافی پر خاموش نہیں رہیں بلکہ ہمیشہ اس نا انصافی کے خلاف کھڑے ہوئیں۔
ایچ آر سی پی کوئٹہ کے رہنماء طاہر حبیب کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک میں عدالتوں کا کام انصاف فراہم کرنا ہوتا ہے البتہ یہاں کمیشن اور عدالتیں انصاف کے بجائے ہراسگی پر اتر آئی ہیں جو کسی شہری کے انسانی حقوق کے سراسر خلاف ہے۔
مقررین کا مزید کہنا تھا کہ انصاف کے حصول کے لئے بلوچ قوم بشمول سیاسی پارٹیاں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جہدوجہد کو مزید تیز کریں تاکہ جبری گمشدگیوں کے سلسلہ کو روکا جاسکے۔
سمینیار کے آخر میں مختلف لاپتہ افراد کے لواحقین نے گفتگو کرتے ہوئے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ لواحقین کا کہنا تھا کہ انکا دھرنا مطالبات کے حصول تک جاری رہیگا۔