مجھے بھی ریحان بننا پڑے گا ۔ سلال سمین

654

مجھے بھی ریحان بننا پڑے گا

تحریر: سلال سمین

دی بلوچستان پوسٹ

آج سے چار سال قبل 11 اگست کے دن بلوچستان کے شہر دالبندن میں ، میں نے دیکھا کے لہو کی چھینٹوں نے پورے دُنیاوی طاقتوں کو ہلا ڈالا۔ بلوچ قومی جہد کو ایک توانا طاقت بخشنے کے لیے شہید ریحان جان نے عظیم فیصلہ لے کر 11 اگست 2018 کو ہمیں ایک منظم اور توانا منصوبے کے ذریعہ ایک بار پھر بمب کی گونجوں سے جگانے کی ایک ممکن کوشش کی، جوکہ بلوچ قومی جہد کے لیے ایک مثبت فیصلہ ثابت ہوا-

اِس گونج میں اُن کئی سالوں کی خاموشی چُھپی ہوئی تھی ، اِس گونج میں ماؤں کی چیخوں اور درد کا دوا مجھے سُنائی دے رہی تھی ، اِس گونج میں بہادری کی مثال قائم تھی ، اِس گونج نے ہم کو بابا اسلم کا بیٹا بنا ڈالا ، اِس گونج نے لُمہ یاسمین جیسی ماں ہمیں دے دی اور اِس گونج میں ہمارا مستقبل طے پایا کے اب بلوچستان کا جنگ کِس حدف کی اور مرکز کی طرف گامزن ہے۔

جب یہ حملہ ہوا تو کسی کے منہ سے سُننے کو مِلا بلوچ سرمچاروں نے ایک فدائی حملہ کیا ہے جو چائنیز پر ہوا ہے ۔اُس وقت تقریباً میرا عمر پندرہ سال کے قریب تھا میں تو حیران رہ گیا کہ چائنیز کون ہیں اور فدائی حملہ کیا ہوتا ہے ؟

میں پہلے اِن ہی سوالوں کی تجسس میں حیران تھا تو کسی نے کہا اس فدائی حملے کی زمہ داری بی ایل اے کی یونٹ مجید برگیڈ نے قبول کرلی ہے اور اِس قُربانی کو بابا اسلم کے بیٹے فدائی ریحان جان نے سرانجام دیا ہے۔

اب میرے زہن میں سوالوں کی دوڑ شروع ہوئی تو میں پوچھنے لگا۔
چائنیز پہ حملہ وہ بھی دالبندین میں کیوں ؟ کسی نے کہا “ناپاک ریاست پاکستان نے چاغی و دالبندین میں چُھپی وسائل کی لوٹ مار اور گوادر کی پاک سرزمین اور اُس کی بیش بہا سمندر کو چائنا کو کئی سالوں پہلے بیچ دیا ہے اور چائنا سی پیک کے نام پہ اِس کاروبار کو تقویت دے کر ریاست پاکستان کی قبضہ کو مضبوط بنانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے-
اور بلوچ نے یہ حملہ اِس لیے کیا تاکہ چائنا اور دوسرے دُنیاوی سرمایہ کاروں کو اِس بات کا علم ہو کہ بلوچ اپنے سرزمین اور وسائل کا مالک خود ہے اور اُس کی دفاع کے لیے اپنے سر کو تن سے بھی جُدا کرسکتا ہے-

پاکستان سے پہلے دُنیا کو یہاں سرمایہ کاری کے لیۓ بلوچ کو رضا مند کرنا پڑے گا- لیکن ریحان جیسے شعور سے لیس بلوچ ورنا نے اس منصوبے کو سو فیصد مسترد کرکے عملاً ریاست پاکستان اور دیگر دنیاوی قوتوں کو یہ باور کرایا کہ بلوچ کے ننگ و ناموس پر کسی منصوبے پر سمجھوتا نہیں ہوسکتا-

اُس وقت یہ باتیں خاص میرے سمجھ میں نہیں آرہے تھے لیکن چار سالوں تک میرے زہن میں ریحان کی قُربانی ایک درخت کی طرح اُگ رہا تھا اور ہر روز میں اپنے نئے سوالوں کے ساتھ سوچ کر اِس درخت کی پیداواری کو مضبوط جڑیں فراہم کر رہا تھا-

آج جب میں لکھنے کے لیے بیٹھا تو میرا کاغذ جیسے ریحان کی لہو سے نہایا ہوا ہے اور میرا قلم ایک بندوق کی شکل اختیار کرچُکا ہے اور دُشمن پر گولیاں برسا رہا ہے۔

میرا سوچ کچھ لمحوں کے لیے ڈگمگا گیا کہ میں تو ریحان نہیں ہوسکتا ہوں لیکن بعد میں ریحان جان کی قربانی پر نظر ثانی کی اُس نے خود کو قُربان کردیا ۔ کس کے لیے ؟

اُس کو اتنا تو معلوم تھا کے میرے قُربانی کے بعد میرے بندوق کو اُٹھانے والے یہی بلوچ نوجوان تو ہیں ۔

ایک بات ہے کہ عمل سے علم بڑھتا ہے اگر مجھ میں کسی نے ایک پختہ نظریہ اور اِس جنگ کے بارے میں علم و آگاہی عطاء کی تو وہ ریحان جیسے نوجوانوں کی قُربانی اور اُن کا بہتا ہوا لہو تھا ۔

میں کہتا ہوں استاد اسلم نے بلوچستان کے سینے میں آجوئی کا ایک درخت بُن دیا اور اب اُس کی جڑیں اِس لیۓ مضبوط تھیں کیونکہ استاد اسلم نے اپنا لختِ جگر پہلے قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا، وہ بلوچ کی زہنیت سے بخوبی واقف تھا کے اگر میں کسی اور ماں کے لال کو بھیج دونگا شاید کہ اس درخت کی جڑیں اُس طرح مضبوط نہ ہوں جس طرح کہ ریحان کی قربانی سے مضبوط ہو سکتی ہیں ۔

ہر وقت اگر آپ کسی کو کسی لائحہ عمل پر عمل کروانا چاہتے ہوں تو ہہلے خود اُس لائحہ عمل کو اپنا لو تو بعد میں آپ کے صفوں میں اضافہ ہوگا اور آپ پہ تنقید کے بجاۓ لوگ بھروسہ کرنے لگینگے، اور استاد اسلم نے یہ عملاً کرکے ثابت کردیا-

استاد اسلم جان نے بالکل یہی کیا اور آج صرف پاکستانی ریاست نہیں بلکہ دُنیا کی دوسری بڑی طاقت چین اُس کی قُربانی کے سامنے اپنا سر جُکھایا ہوا ہے-

میرے خیال سے غلامی کی غفلت والی نیند کا کوئی دوسرا نام نہیں ہوتا کیونکہ غلامی وہ چیز ہے جو آپ کا نام ، آپ کی قومیت ، آپ کے روایات اور آپ کی آزادی اِن سب چیزوں کو آپ سے چھین لیتا ہے اور بعد میں اگر کوئی آپ کو پہچان لے گا تو وہ صرف ایک غلام کی شکل میں اور اِس دنیا میں غلام صرف غلامی کرنے تک محدود ہوگا دنیا میں غلام کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی-

اگر چہ یہی غلام بغاوت کی شکل اختیار کرکے مزاحمت کرنے پر اُتر آئے تو وہ جب تک مزاحمت کررہا ہے تو وہ غلام نہیں بلکہ وہ ایک مزاحمت کار کے نام سے جانا جاتا ہے-

جب کوئی خود کو مایوسی کا شکار بنا کر زنجیروں میں جکڑا رہے گا تو اُس کے لیے صرف لفظ غلامی ہی استعمال ہوگا اور کچھ بھی نہیں۔

اگر قوموں کی تاریخوں کو دیکھا جاۓ تو آپ کو ہمیشہ مزاحمت کاروں کے نام تاریخی اوراق میں دیکھنے کو ملے گی اور آج تک بھی کسی غلام کا نام آپ کو نہیں ملے گا ۔

غلام کی زندگی صرف دو ہی دنوں کا ہوتا ہے اور وہ دو دن ہی رسوائی اور زلّت کے ہوتے ہیں پھر جیسے ہی اُس نے اپنی آنکھوں کو بند کرلیا تو اُس کا نام و نشان ہی اِس دُنیا سے مِٹ کر رہ جاۓ گا۔

ایسا نہیں ہے کہ جو آج کل پُر سکون زندگی گُزار رہے ہیں اُن کو غلامی کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ آپ کا غلامی آپ پر قابض ہونے والے کو ایک اعلیٰ رُتبہ دیتا ہے اور وہ ہمیشہ آپ کو اِس بات کا احساس ضرور دلاۓ گا کہ آپ جو بھی ہو لیکن ہو تو غلام ۔

ریحان اگر یہ سوچتا کہ ایک آرام دہ زندگی گُزارنے سے غلامی کا داغ میرے پیشانی سے ہٹ جائے گا تو وہ اپنی جان کی قُربانی کیوں دیتا لیکن وہ جانتا تھا ایک آزاد قوم کا سب سے بڑا طاقت اُس کی پہچان ہے اور دُنیا کو اُسے کو تسلیم کرنا ہوگا-

ریحان جانتا تھا کہ اگر میں اور تُم پورے بلوچستان میں آزاد گھومیں اگرچہ ناپاک پاکستانی فوج ہمیں کچھ بھی نہیں کرے لیکن دُنیاوی تاریخ میں مجھے اور تُمیں تو غلام ہی کہا جائے گا۔

اگر کوئی غلام جنگ کرے تو اُس کے لیۓ فرض بنتا ہے کہ وہ کسی بھی چیز کی قُربانی سے گُریز نہ کرے اور بلوچ کی جنگ اپنی دفاع کی جنگ ہے۔

اپنے وسائل کو بیرونی سرمایہ کاروں سے بچانے کا جنگ ہے اور ایک آزاد ریاست قائم کرنے کا جنگ ہے۔

اِس جنگ میں ایک ریحان تو کیا ہزاروں ریحان قُربان ہوجائے تو وطن کی ایک مٹھی بھر مَٹی کا بھی حق ادا نہیں ہوسکتا۔

آج اگر تاریخ ریحان کو یاد کررہا ہے یا دوسرے نوجوانوں کی شکل میں اُسے دُہرا رہا ہے تو وہ ریحان کی خود کی بہادری ، سوچ ، حوصلہ اور قُربانی کی بدولت ہے۔

ریحان کی قُربانی نے ہر نوجوان کے کانوں میں ایک کُوک (پُکار) پہنچا دیا اور ہر نوجوان کے رگوں میں ایک خون کا قطرہ ڈالا اب یہ مجھ پے اور تُم پے ہے کہ ہم لوگ اِس فرض کو کس طرح سر انجام دیتے ہیں۔

ریحان ایک فلسفہ ، ایک نظریہ ، ایک سوچ ، ایک ہیرو اور ایک کردار بن کے زندہ اور امر ہے لیکن وہ ہمارا منتظر ضرور ہے کہ جس بندوق کو ہمارے بھروسے رکھا گیا ہے ہمیں اِس بندوق کو کہاں ، کیسے اور کِس جگہ پہ استعمال کرینگے-

بلوچ نوجوانوں سے گُزراش بس اِس بات کی ہے کہ وہ اِس جنگ کو اپنا سمجھ کر اِس میں حصہ لیں اور وہ ریحان بن سکتے ہیں کیونکہ ریحان چاہتا تھا کہ وہ ہر ورنا ریحان بنے- محنت ، جزبہ ، حوصلہ اور آزادی کی جنون خود میں پیدا کرکے اِس ناپاک ریاست کو نیست و نابود کرے اور بلوچستان کی آزادی تک لڑے اور بڑی سے بھی بڑی قُربانی سے دَریغ نہ کرے ۔

اگر میں ریحان نہیں بنوں تو ریحان کا لہو جو میرے خون میں دوڑ رہا ہے وہ میرے نسوں کو پھاڑ کر میرے بے کار جِسم سے نکل جاۓ گا۔

میں ریحان اِس لیے بنوں گا، تاکہ جو لہو ہمیں ملا تھا ہم اُس کو دُشمن کے لیۓ ایک اور ریحان بنا دیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں