قوم پرست لیڈر، قومی دانشور، اورکوئٹہ ریڈ زون دھرنا
تحریر: ایڈووکیٹ عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کوئٹہ ریڈ زون دھرنا: اول تو یہ کہ یہ علاقہ یا ایریا ریڈ زون کیوں کہلاتا ہے؟ کیونکہ یہاں پر سپریم کورٹ کی بلوچستان رجسٹری کی بلڈنگ, بلوچستان سول سیکٹری ایٹ ، وزیر اعلیٰ ہاؤس اور آفس، گورنر آفس اور ہاؤس، تمام وزرا کے سرکاری گھر اور دفاتر، بلوچستان اسمبلی، بلوچستان ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اور ضلعی کچہری سمیت پاس ہی سول ہسپتال، پی ٹی سی ایل ہیڈ آفس، پوسٹ آفس بلوچستان کا دفتر، سرینا ہوٹل، کنٹونمنٹ بورڈ، کمشنر کوئٹہ اور ڈی سی آفس، اور قریب ہی بلوچستان تمام اور پاکستان لیول کے وکلا کے دفاتر، کوئٹہ پریس کلب، یہ تمام آفیسز اور ان کی بلڈنگز ایک دوسرے سے جڑے ہوۓ ہیں، یہ سب مل کر پورے بلوچستان کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں جن کے اثرات بلوچستان کی حد تک مرکز پر بھی پڑتے ہیں۔أجکل اسی ریڈ زون پر چند خیمے لگے ہیں جن میں کچھ لوگ مسنگ پرسنز کی لواحقین کے نام سے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ، ان کے مطالبات کیا ہیں ، اور یہ مطالبات کس سے اور کیونکر ہیں؟ میں یہاں ان سب پر بات نہیں کروں گا۔
سوال یہ ہیکہ یہ ایریا ریڈ زون کیوں کہلاتا ہے ؟
اس لئے کہ اوپر زکر کئے گئے عمارتوں کو ملانے والا یہ جنکشن ہے اس لئے یہ سب سے اہم اور حساس ترین جگہ ہے، دراصل یہ بابو لوگوں کا علاقہ ہے اسے ریڈ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ ان خیمہ نما لوگوں کو جو انصاف کے حصول کیلئے یہاں دھرنے پر بیٹھے ہیں بجاۓ اس کے کہ انھیں انصاف ملے، تحفظ ملے، پر لگتا ایسا ہے شاید ریڈ زون والوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے، استحصال، جھوٹ، دھوکہ اور فریب جو یہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں انھیں اس بات کا ڈر اور خوف ہیکہ ان کی یہ اصلیت ظاہر نہ ہو جاۓ، تبھی اس علاقے کا نام ریڈ زون پڑا ہے، اب انھیں کوئی لینن یا ماؤ کے سرخے نہ سمجھے بلکہ یہ سرخ نوٹ کے دیوانے ہیں، یہاں کسی کو انصاف نہیں ملتا، اگر ہے تو بس پی ایس ڈی پی، فائلیں اور کمیٹیاں۔
یہاں ہمیشہ سے جس سیاسی پارٹی اور لیڈر نے سیاست کی ہے ، اس نے ہر لمحہ سر زمین ، شہداء ، قوم اور قوم پرستی ہی کی بات کی ہے تو آج ان خیموں میں بیٹھے لوگ زمین زادے/ زادیاں تو ہیں ہر قوم پرست پارٹی، قوم پرست سیاستدان اور قوم پرست دانشور نے انہی کے نام پر انہی کے مسائل کی بنیاد پر ہی تو اپنی ڈیڈھ انچ کی مسجد بنا کر اپنی دکانداری کی ہے ، تو أج یہ زمیں زادے گزشتہ تین ہفتوں سے مسلسل اپنے جائز مطالبات لئے اسی ریڈزون میں بے یار ومددگار کیوں بیٹھے ہیں؟ انھیں سننے والا کوئی کیوں نہیں، یہ مسلسل کمزور اور بیمار پڑھ رہے ہیں ، ان کی خوراک، آرام، سونا، جاگنا ، قدرتی حاجات و ضروریات سب یہیں پر ہورہے ہیں۔
تو ایسے میں قوم پرست پارٹیاں ، لیڈر صاحبان اور قومی دانشور کہاں ہیں؟ اب تو ان خواتین کو اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، ان کا یہ بیٹھنا بہت سی قوتوں کو ناگوار گزر رہا ہے۔ ایسی تمام قوتیں جو ان زمین زادوں کے مسائل پرسیاست کرکے نام، شہرت اور دولت سمیت سب کچھ بٹور چکے ہیں أج وہ ان کی حال پرسی کرنے کیوں نہیں جاتے، کیا جو أپ کے مسائل پر سیاست تو کرے پر عین وقت ضرورت آپ کا ساتھ نہ دے تو اسے سودہ گر نہ کہے تو اور کیا کہے؟
ایسے حالات میں میرے ذہن میں یہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ کیا ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے کم از کم قومی پارٹی، قومی لیڈر ، قوم پرست و قوم پرستی اور قومی دانشور کے حوالے سے کہیں دھوکے کا شکار تو نہیں؟ ہمیں گمراہ کرکے غلط معنی اور غلط تعلیم تو نہیں دی گئ ہے؟
لینن کہتا ہے کوئ خواندہ شخص پڑھا لکھا، دانشور اور لیڈر کی تعریف پر آسکتا ہے ( تعلق قومی تعلیم اور لٹریچر سے ہو) ماؤ کی تعریف بھی اسی سے ملتا جلتا ہے کہ ( خواندہ ہو، میٹرک تک تعلم ہو اور پڑھنا لکھنا جانتا ہو) ۔
ناؤم چومسکی کہتا ہے کہ قومی دانشور ، قومی لیڈر اور قومی پارٹی یا پھر تنظیم بر سر اقتدار قوتوں کا حکومت کے ساتھ کسی بھی طرح شریک اقتدار نہ ہو ، سرکار کی جانب سے عوام پر کی جانے والی ظلم و زیادتی اور استحصال کے بارے میں بولے، لکھے اور اس کی نشاندہی کرے اور خاص کر سرکاری خزانے سے ایک آنا بھی نہ لے پھر چاہے وہ تنخواہ ہو یا وظیفہ، تو ایسے افراد قومی لیڈر، قومی دانشور ایسا پلیٹ فارم قومی ادارے کی زمرے میں أسکتے ہیں۔
یہاں پر میری اپنی ناقص رائے میں ہر وہ انسان چاہےانگوٹھا چھاپ ہی کیوں نہ ہو اگر اسے اپنی تاریخ کے بارے ماضی اور حال سے واقفیت ہو ، مستقبل بارے تجزیہ کرنا جانتا ہو، اپنی سر زمین اور قومی مسائل و استحصال و استحصالی کی نشاندہی کرنا جانتا ہو، قومی معاملات میں سچ بولے اور اچھے قومی کردار کا مالک ہو اس بارے میں سمجھ بوجھ رکھتا ہو بلکہ اس بارے میں لکھے اور بولے تو ایسا شخص کچھ حد تک قومی لیڈر اور قومی دانشور کی دائرے میں أسکتا ہے اور ان کا استعمال کردہ ادارہ قومی پلیٹ فارم کہلایا جاسکتا ہے۔
وگرنہ ایسا نہیں ہے تو کارپوریشن ، بزنس مین اور فراڈ میں فرق کرنا مشکل ہوگا ، جو کافی حد تک أج کے بلوچستان میں ہورہا ہے اسی لئے بھگی کھینچنے والا أج بھی خود تو بھگی گھینچ رہا ہے اور قوم کو لگام ڈال کر اس لگام کا سودا لگانا چاہتا ہے۔
میں بس اتنا ضرور کہوں گا کہ جو لوگ ریڈ زون میں بیٹھے خیمہ نشینوں کے ساتھ منسلک نہیں ان کا اس سرزمین ان کی سیاست ان کے مسائل اور قوم پرستی سے دور دور کا تعلق نہیں، کیونکہ أج کے بلوچستان کا مسئلہ انھیں خیمہ زنوں سے جڑاہے۔ اس لئے اب ہمیں بہت سے سیاسی سماجی اور قومی معاملات میں اپنی خود کے معنی اور تعریف خود ہی ڈھونڈنے ہونگے جو شاید دنیا کے کسی بھی دانشور کی کتاب میں موجود نہ ہو پر ان زمین زادوں کی کتابوں میں ان کی تعریفیں ضرور موجود ہونگے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں