فدائی سربلند مستقل مزاجی کی مثال
تحریر: سلیمان بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آزادی کی کوئی معمولی قیمت نہیں، جو ہم کچھ نقد و ادھار دے کر حاصل کرلینگے۔ آزادی مکمل قربانی مانگتی ہے، خواہ وہ قربانی خود کی ہو، اولاد کی ہو، خاندان کی ہو یا عوام کی حتیٰ کہ آزادی وہ آخری سانس کی بھی قربانی مانگتی ہے جس میں کسی دوسرے لفظ کی توقع ہو۔ یہ ریحان، سربلند، شاری جیسوں کی مکمل قربانی کی بدولت ہے جو آج ہم سینہ تان کر بلوچستان کی گلیوں اور پہاڑوں میں پیر جمائے چلتے ہیں۔
سربلند ایک مستقل مزاج فدائی تھا، جو اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہوا، اس کی مسکراہٹیں آخری وقت تک اس کے چہرے پر سجیں تھیں۔ کہتے ہیں کہ انسان کا نام اس کے کردار کی عکاسی کرتا ہے۔ کا کا انور نے کچھ سوچ کر ہی اپنے اولاد کا نام سربلند رکھا ہوگا تب ہی تو سربلند نے اپنے کردار کو خود اتنا بلند کر دیا کہ ہم سب اس کے کردار کے سامنے جھک گئے۔
سر بلند کا کردار اتنا بلند ہے کہ مجھ جیسا کمزور اکیلے اس عظیم کردار کو انجام دینے کی قابل نہیں، اسلئے سربلند کے کردار کو مزید بیان کرنے کیلئے “برزکوہی” کے لفظوں کا سہارا لینا پڑا؛ “سنگت یہ موت نہیں تاریخ ہے میں موت کی جانب نہیں بلکہ ابدی زندگی کی جانب بڑھ رہا ہوں۔” یہ لفظ اس جانباز کے ہیں جو اپنے مقصد سے چند منٹ پہلے کمانڈر کو پیغام بھیجتا ہے۔
انسان اپنی زندگی کی آخری سانسوں کے وقت ہمیشہ دل کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کرتا ہے، وہ اس بات کو بھی بتاتا ہے جو بتانے کے نہیں ہوتے لیکن سربلند اپنے مقصد میں اتنا مخلص تھا کہ وہ اپنے ہر ایک لفظ کو تاریخ کے شاخ پر پیوند کر رہا تھا۔ اسے کسی چیز کا افسوس نہیں تھا کیونکہ سربلند فیصلہ کرچکا تھا کہ وہ اپنی آخری سانسوں کو بھی زمین پر نچھاور کر دیگا؛ “کوہ باتیل کے قریب بلوچ ساحل سے ہوا کا اٹھتا ایک جھونکا، بلوچ وارڈ میں پھیلے اس پاک خون کی مہک کو اپنے دامن سے باندھ کر پیغام آجوئی کی خوشخبری کو زمین کے ہر ایک ذرے تک پہنچانے نکلا تھا۔”
“بلوچ کی زمین بھی اپنے فدائیوں سے کتنا محبت کرتا ہے اس زمین کی مہک اور خوشبوؤں نے ہزاروں میل دور ایک نوجوان کو اپنے طرف قائل کیا، بغیر ہچکچائے وہ سفر پر روانہ ہو جاتا ہے۔ یوں تو دیکھیں دشمن پر حملہ کرنے کیلئے ہزاروں جگہیں تھے، سینکڑوں ترکیبیں تھیں لیکن وہ نوجوان کیسے پہنچ جاتا ہے جس جگہ کا نام بلوچ وارڈ ہو۔ بلوچ کی تاریخ ہی بلوچ زمین سے بندھا ہوا ہے جس جگہ کا نام بلوچ سے منسلک ہو وہ جگہ مزاحمت کاروں کا ہی ہوگا۔”
“بھرپور جوانی کے دہلیز پرقدم رکھنے والا سربلند کا فیصلہ اپنی جگہ سے ایک انچ تک نہیں بدلتا”
سربلند کا فیصلہ کیسے بدلے گا بچپن سے لیکر جوانی تک اس کے نرم نازک قدم زمین کی گود میں پل بڑھ رہے تھے اور اسے اپنے زمین کے ایک ایک ذرے سے عشق تھا۔ انہیں اپنے زمین کے ذرے ذرے سے محبت تھا، اس کیلئے زمین سے بڑھ کر کوئی تھا ہی نہیں۔
لوگ انہیں جذباتی کہتے ہیں پتہ نہیں کیوں ان زمین زادوںکے بارے میں کیا تاثرات چھوڑتے ہیں، لیکن میں نے فیصلہ لینا سربلند سے سیکھا زمین سے حقیقی محبت کرنا سربلند سے سیکھا۔
وہ نہ جذباتی تھا اور نہ ہی لاعلم انہیں ہر چیز کا علم تھا کہ کون کہاں کس طریقے سے زمین سے محبت کر رہا ہے یا غداری یا وہ اپنے ماضی کے داغ دوسرے کے اوپر ڈال کر خود کو تاریخ کا خیرخواہ سمجھ رہا ہے۔ ان سب کے باوجود سربلند نے وہی کیا جو ایک سپاہی کو آزادی کے لئے کرنا ہے۔
“اور تین سال بعد اسے کہا گیا کہ اپ کی باری آگئی ہے تو اس کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سج گئی لوگ پوچھتے ہیں سربلند کون ہے۔ سربلند ان آنسوؤں سے لیکر مسکراہٹ کی کہانی ہے اور اس آنسوؤں سے لیکر مسکراہٹ کے بیچ میں جو کچھ بھی ہے بلوچ کے خوشحال مستقبل اور آزادی کی راز سربلند نے وہیں کہیں رکھا ہوا ہے جسے ہم سب نے ہمارے نوجوانوں نے اور خاص طور پر ہر ایک مایوس دل نے ڈھونڈنا ہے” برزکوہی کے اس فقرے کی میں بہت حمایت کرتا ہوں کیونکہ اس فقرے میں دو گہری کہانیاں چھپی ہیں ایک تو ہمارا نوجوان جو اس تاریخ میں تبدیلی کے ضامن ہیں بشرطیکہ وہ نوجوانوں کو سربلند جیسا مستقل مزاج بننا ہوگا اور شعور و جذبات کے درمیان فیصلہ لینا ہوگا کیونکہ فقرے میں جن مایوسیوں کا ذکر کیا ہے وہ اب میدان میں آنے والے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ اب اس قابل ہیں کہ وہ میدان سنبھال سکیں، تو ہم سب کو اس آزادی کے راز کو ڈھونڈنا ہے جسکو سربلند نے تین سالوں کے درمیان کہیں دفن کیا ہ۔ وہی ہمارے آزادی کا خزانہ ہے جنہیں وہ اپنے وراثت میں چھوڑ کرگیا ہے۔
سربلند کی مسکراہٹیں اب بھی گوادر کی گلیوں میں نقش ہیں شاید ہی اس وقت کسی نے اسے دیکھا ہوگا اگر دیکھا ہے تو سربلند کی مسکراہٹیں ضرور اس کے دماغ میں نقش ہوئی ہونگی۔ یہ مسکراہٹیں فقط دوستوں کیلئے پھول نہیں بلکہ یہ دشمن کیلئے بارود کے ذرے ہیں جسکی آگ میں پاکستان اور چین بہت جلد جھلس جائیں گے۔ آزادی کی یہ جنگ آخری سانس آخری سپاہی تک جاری رہے گی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں