عشاق کُتب ڈوب رہے ہیں ۔ محمد خان داؤد

174

عشاق کُتب ڈوب رہے ہیں

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کتابوں کے ورقوں کو اُلٹو گے تو ایسی سطرپر نظر پڑے گی کہ
”سیاست دان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے جب کہ مفکر اگلی نسل کا“
پر وہ بلو چ سیاست کار کیا کر رہے ہیں جو بھاری بھاری کُتب پڑھتے ہیں اور بہت معمولی افسانے لکھتے ہیں۔ وہ بلوچ سیاست کار جب کراچی میں ادبی پروگراموں میں مدعو کیے جاتے ہیں تو اسٹوری ٹیلر بن جاتے ہیں اور وہ قصے کہانیاں گڑھتے ہیں کہ سن کر حیران ہو جاتے ہیں۔
ان بلوچ سیاست کاروں سے وہ کیوں بھولا جا رہا ہے جو کسی کو بھی اپنے سے کتاب دیتا تھا تو اس کتاب پر لکھتا تھا کہ”سیاست دان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے جب کہ مفکر اگلی نسل کا“
کیا وہ بلوچ سیاست کار کی مکاری سے واقف تھا؟
کیا وہ جانتا تھا کہ سردار تو سردار پر اہل علم و قلم بلوچ سیاست کار بھی دھاٹ کے تین پاٹ ہیں۔

کاغذوں پر اظہارِ آزادی کے نقوش کھیچنے اور بات ہے اور اظہارِ آزادی کے لیے عملاً میدان میں آنا اور بات ہے۔ہمیں ان بلوچ سیاست کاروں سے کوئی گلا نہیں جو اپنے آبائی علائقوں سے ووٹ لیکر وزرا، سینٹ چئیر مین اور سینٹر بن کر ملک کے بڑے شہروں میں آ بسے ہیں
ہمیں تو ان بلوچ سیاست کاروں سے گلا ہے جو اسمبیلی میں عطا شاد کا شعر پڑھتے ہیں،اپنی باتوں میں رو تے ہیں اور آزادی جیسے گیت لکھتے ہیں
کیا ان بلوچ سیاست کاروں نے یہ علمی مقالہ نہیں پڑھا
”انصاف کی قیمت مسلسل نشر واشاعت ہے“
اگر سنا ہے،پڑھا ہے،ان کے آنکھوں سے گزرا ہے تو ہم انہیں بس اتنا کہنا چاہتے ہیں
وہ جوگی گزشتہ پانچ دنوں سے گم ہے جسے یہ گمان تھا کہ کتابوں سے تبدیلی لائی جا سکتی ہے
جو شہر یاراں میں اکیلا گل خان نصیر کا وارث تھا
کتابوں نے اسے امیر نہیں کیا
عطا شاد کی بولی نے اسے اسیر زندان کر دیا ہے
کیا بلوچستان کے علمی سیاسی حلقے ایک ٹویٹ کے بعد بری الزماں ہوگئے
اس صوفی کے یوں گم ہوجانے کے بعد تو سوشل میڈیا جل اُٹھنا چاہیے تھا
پر تمام تر سوشل میڈیا سیلاب کے پانیوں میں تیر رہا ہے۔اور وہ تصویر بھی بہت جلد سوشل میڈیا کے سیلابی پانی میں غرقاب ہو جائے گی جسے کامریڈ واحد نے اپنے ہاتھوں میں تھاما ہوا ہے
حالاں کہ اس تصویر کو پرچم بننا چاہیے
اعلان کا پرچم
جدو جہد کا پرچم
شور کا پرچم
اور اس بات کا پرچم کہ”آخری ہماری کتابیں،کتابیں ہیں کوئی بارود تو نہیں!“
اور ہمارے اہل علم دانشور ہیں کوئی دشت گرد تو نہیں
پھر وہ کیوں اُٹھا لیے جاتے ہیں
اور ہم جانتے ہیں ہمیں پکا یقین ہے کہ ہماری کتابوں میں سوائے درد،دکھ کے نوحوں اور مرثیوں کے کچھ نہیں ہماری کتابوں میں یورینم کے فارمولے نہیں اور ہمارے لکھنے والے بس دردوں کے شاعر ہیں اور ماتم کے موسموں میں جی رہے ہیں تو وہ کیوں اُٹھا لیے جاتے ہیں
ان کے الفاظوں میں ایسی بغاوت بھی نہیں ہو تی جیسی بغاوت کلام اقبال میں جا بجا ہے کہ
”گفتند جہاں ما آیا یہ تو مے ساز دا
گفتم کہ نہ مے سازو گفتند کہ برہم زن!“
انہوں نے پوچھا کہ”کیا ہمارا جہاں تمہارے ساتھ اچھے سے چلتا ہے؟!“
جواب دیا کہ ”نہیں“
تو کہا”اسے درہم بھرم کردو“
جب کہ ہماری کتابوں میں کیا ہے؟
”جب سورج مکران کے ساحل میں ڈوب رہا تھا
سرخ تھا
مجھے محبوبہ کے سرخ گال یاد آگئے!“
کیا سرخ گال بندوق کا کام کرتے ہیں؟!
یہ سوال ان بلوچ سیاست کاروں کے لیے ہے جو ہم پر اپنی علمی لیاقت مسلط کرتے ہیں
ثناء بلوچ
ڈاکٹر مالک
کُرد
جلیلہ حیدر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ اپنی خاموشی کا روزہ بھی توڑیں اور وہ یہ بھی کہیں کہ
”اعلان ہزاریں مان نہ رگو!“
کیوں کہ ان کے لیے ہمارے ذہنوں میں ایسا بُت بنا ہوا ہے کہ
‏the great men hallow a whole people.life up all live their time
”عظیم انسان پوری قوم کو مقدس نہیں بناتے،پر ان سب کو سرفراز کرتے ہیں جو ان کے دور میں جیتے ہیں!“
تو جناب لالہ فہیم بھی آپ کے دور میں جی رہا ہے،اسے عظیم نہ بنائیں،سرفراز نہ کریں
بس اس کے لیے آواز بلند کریں،ٹویٹ سے جان مت چھڑائیں
نظمیں لکھیں،گیت لکھیں،مرثیہ نوحہ ہم لکھ رہے ہیں
آپ لالہ کی تصویر تھامیں روڈ پر آئیں،
آپ پر دوہری ذمہ داری ہے آپ بس سیاست کار نہیں قلم کار بھی ہیں
آپ پر بس اگلے الیکشن کا نہیں سوچ رہے پر آپ تو اگلی نسل کا سوچتے ہیں
اس لیے سوشل میڈیا کے سیلاب کی نظر مت ہوں یہ سوشلی سیلاب ویسے بھی آپ کو بہا لے جائے گا
ہم آپ کو روڈوں پر دیکھنا چاہتے ہیں وہاں جہاں کتاب شناس ہیں جہاں قلم کار ہیں جہاں عشاق کتب ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ
”ان کتابوں نے بڑا ظلم کیا ہے!“
وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کتابوں نے فہیم لالہ کو امیر شہر نہیں اسیر شہر کر دیا ہے
اس لیے آپ باہر نکلیں اور ہمیں بتائیں کہ کتاب،سوائے کچھ ورقوں کے کچھ نہیں
درد بہت سے آنسوؤں کا دریا ہوتا ہے
جس میں اس وقت عشاق کتب ڈوب رہے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں