بلوچ قوم ۔ منیر بلوچ

777

بلوچ قوم

تحریر:منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہتے ہیں کہ جن اقوام نے کبھی عروج دیکھا ہے ان کو زوال کا سامنا کرنا پڑیگا کیونکہ یہ فطرت کا اصول ہے، ہر عروج کے بعد زوال اور ہر زوال کے بعد پھر عروج نمودار ہوتا ہے. زندگی کا پہیہ گھومتا رہتا ہے اور عروج و زوال آتے رہتے ہیں.

سوال یہ ہے کہ آج جس راستے پر بلوچ قوم گامزن ہے، کیا یہ راستہ بلوچ قوم کی عروج کا ایک سفر ہے؟ اگر واقعی یہ سفر عروج کا ہے تو کیا بلوچ زوال پذیر ہوا ہے؟ اگر بلوچ زوال پذیر ہوا ہے تو کب بلوچ قوم نے عروج کے ان پر لطف لمحات میں زندگی گزاری ہے؟

کچھ دانشوروں نے کہا ہے کہ بلوچ عرب نسل ہے تو کچھ بلوچ کو آریا قرار دیتے ہیں تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بلوچ آریا نسل سے تعلق رکھتے ہیں یا عرب النسل ہیں تو کیا یہ عروج بلوچ قوم کے حصے میں آئے گا؟

تو ان تمام سوالات کے جواب یہ ہے کہ بلوچ ایک تاریخی قوم ہے جو مختلف نشیب و فراز سے گزر کر آج ایک ارتقائی و عروج کے سفر پر گامزن ہے اور بلوچ کے عروج کا زمانہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب آج سے گیارہ ہزار سال قبل مہر گڑھ میں بلوچ کی رہائش، تہذیب و تمدن کے آثار ملے ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ بلوچ کے بارے میں جو من گھڑت قصے کہانیاں بیان کئے گئے ہیں وہ جھوٹ پر مبنی ہیں کیونکہ بلوچ انسانوں کے ایک ایسے قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو پتھر کے زمانے سے اس دنیا کی ترقی میں حصہ ڈالتے رہے ہیں.

بلوچ نہ عرب النسل اور نہ ہی آریا بلکہ بلوچ ایک قوم ہے جو صدیوں سے روئے زمین پر آباد ہے اور آج کا بلوچستان جو قحط زدہ ہے. ماضی میں یہاں جنگلوں کی بہتات تھی جہاں ہزاروں نسل کے دیو قامت جانوروں کا بسیرا تھا.

بلوچ زبان کی ترقی و بلوچی ادب کے متعلق شاہ محمد مری کہتے ہیں کہ
یہ زبان آسمان سے نہیں اتری بلکہ ارتقائی عمل سے گزر کر اس مقام تک پہنچی. مزید کہتے ہیں کہ بلوچوں پر کی گئی شاعری تو قدیم زبان سے ملتی ہے مگر خود بلوچوں کی اپنی شاعری تاریخ کی دھند میں گم ہوچکی ہے۔ ہمیں بس رند و لاشار کے دور کی شاعری ملتی ہے کیا زبردست شاعری ہے وہ. بالغ لٹریچر کا جھلکتا جام ہےیہ. اس قدر امیر اس قدر متنوع، اس قدر پر معنی، رنگین اور متنعرل کہ جی خوش ہوجائے.

اس دنیا سے ارتقائی سفر مکمل کرکے بلوچ ایک ریاست کی طرف محو سفر ہوا، دنیا کے بڑے بڑے سامراجی و استحصالی طاقتوں کو دھول چٹاکر اپنی ریاست کو محفوظ بنایا اور پندرہویں صدی میں ریاست سے باقاعدہ ابتداء کی اور اس ریاست کو ایک ترقی یافتہ اور تجارتی گزرگاہ بنانے میں نصیر خان نوری نے اہم کردار ادا کیا اور ایک کنفیڈریسی نظام سیاست کی بنیاد رکھ کر اپنے بلوچ عوام کو ترقی و مراعات دینے کی کوشش کی.

سنہ 1750 سے لے کر سنہ 1839 کا ہم بلوچ قوم کے عروج کا دور کہہ سکتے ہیں۔

نصیر خان کے دور کے بعد بلوچ ریاست منتشر ہونا شروع ہوئی سب سے پہلے اسکی ریاست کے اتحادی فیوڈل حکمرانوں نے اس خواہش کی بناء پر حکومت چھوڑا کہ ان کا حصہ بڑھایا جائے اور خان کا کم کردیا جائے اسکے علاوہ سندھ کے حکمرانوں نے کراچی بندرگاہ پر قبضہ کرلیا اور جو تاجر یہاں تجارت کررہے تھے وہ بد حال ہوکر کہیں اور منتقل ہوگئے اور ترقی کا پہیہ زوال کی طرف جاتا دکھائی دیا.

یہ دور عروج کا دور تھا جو آپسی ناچاقی، چپقلش اور استحصالی ریاستوں کی استحصالی ذہنیت کی وجہ سے زوال میں تبدیل ہوا جس کا آغاز انگریزوں کے قبضے سے شروع ہوا جو 108 سال تک جاری رہا. 108 سالہ دور غلامی میں بلوچ کو تقسیم در تقسیم کیا گیا سنڈیمن کی شکل میں ایک سیاسی سردار بلوچ پر مسلط کیا گیا جس نے بلوچ جرگے اور خان کی حیثیت کو ختم کرکے سرداروں کو طاقتور کیا.

دوران قبضہ سیاسی و مسلح مزاحمت جاری رہی بلوچ قوم نے سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی، سیاسی جلسے جلوس منعقد کئے اور یہ مزاحمت کا نتیجہ گیارہ اگست 1947 کو آزاد بلوچستان کی صورت میں نمودار ہوا، ایسے لگ رہا تھا کہ بلوچ قوم ایک بار پھر عروج کے دور میں داخل ہوگا لیکن برطانیہ اور دیگر طاقتوں کے اس خطے میں مفادات کی وجہ بزریعہ پاکستان بلوچ وطن کو زبردستی قبضہ کیا گیا اور وہ دن اور آج کا دن بلوچ غلامی کی زندگی بسر کررہی ہے.

مزاحمت جاری رہی مزاحمت کی پاداش میں پھانسیاں، جیلیں، جلا وطنی فوجی آپریشن ہوتے رہے جنگ جاری رہی لیکن اکیسویں صدی میں بلوچ جنگ ایک سائنسی جنگ میں تبدیل ہوگئی جو جنگ قبائل اور سرداروں نے لڑی وہ جنگ تنظیموں اور پارٹیوں نے عوام کے درمیان لا کر رکھ دیا اور آج عوام کی شمولیت اور پارٹیوں اور تنظیموں کی سائینسی جدوجہد نے عروج کے جنگ کو تقویت بخشی اور مستقبل میں مزید تقویت فراہم کرتی رہے گی.

اس جنگ کی وجہ سے بلوچ نے جبری نقل مکانی، جبری گمشدگی، مسخ شدہ لاشیں، اجتماعی قبریں، جعلی مقابلے اور پتہ نہیں کیا کیا برداشت کیے لیکن قدم مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں کیونکہ اتنی قربانیوں کے بعد بلوچ ادراک کرچکا ہے کہ عروج و زوال آتے رہتے ہیں اور ہر زوال کے بعد عروج آفتاب لازمی امر ہے اور یہ بھی بلوچ جان چکے ہیں کہ قربانیوں کا حاصل مجموعہ آزادی ہے جس کو حاصل کرکے بلوچ قوم ایک بار پھر عروج کو حاصل کرلے گا جو کہ بلوچ کا فطری حق ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں