بلوچ سماج میں ادب کی اہمیت ۔ (حصہ دوئم) سگار جوھر

451

(بلوچ سماج میں ادب کی اہمیت (حصہ دوئم

تحریر: سگار جوھر

دی بلوچستان پوسٹ

کثیر التعداد مابعد جدیدیت(post-modernis) عجائبات میں سے ایک بہت ہی عجیب چیزیں، مقصد کی باتیں : یعنی نظریاتی بحث و مباحثہ کا، ہر کام کا، ہر خیال کا مقصد، ہر چیز کی افراتفری کا مقصد پوچھنے لگے ہیں۔ بغیر غور کرنے کی صلاحیت، مصنفین مقصد کی جستجو میں رہتے ہیں اور جب خود مایوس ہو جاتے ہیں، تو دوسروں کے پیچھے پڑتے ہیں کہ وہ کچھ معلوم کریں اور ہمیں بتائیں۔ کسی مقصد کے ہاتھ نہ لگنے سے ان کے بعد چڑچڑے اور بدگمان ہو جاتے ہیں۔ ہمارے ادیب درخواستیں لکھتے اور سفارشیں کرانے پھرنے کے بعد کہتے ہیں کہ “ہماری آزادی کے رستے میں ایک ایسا انتشار پیدا ہو گیا ہے جسے شاید اب مقصد کا صحیح علم بھی دور نہ کر سکے گا”

بعض دانشور مثلاً میتھیو آرنلڈ (Mathew Arnold) ہر اُس علم کو جس میں aesthetic اور Romance جو ہم تک پہنچے، ادب قرار دیتے ہیں۔

والٹر پیٹر (Walter Peter) کا خیال ہے کہ ’’ادب، واقعات یا حقائق کو صرف پیش کر دینے کا نام نہیں بلکہ ادب کہلانے کے لیے اظہارِ بیان کا تنوع ضروری ہے۔‘‘

کارڈینل نیومن (Cardinal Newman) کے کہتے ہیں کہ ’’انسانی افکار، خیالات اور احساسات کا زبان اور الفاظ کے ذریعے اظہار ’’ادب‘‘ کہلاتا ہے۔‘‘

ایک اور تعریف میں” ادب معاشرے کا آئینہ ہے” اس لیے کہ سارے معاشرے کے چہرہ کو آئینہ کی طرح دکھاتا ہے، ادب میں الفاظ کی ترتیب، افکار، لوگوں کے جذبات، دکھ و درد، احساسات و تجربات کا اظہار اس طرح کیا جائے کہ پڑھنے اور سننے والے میں مسرت کا احساس پیدا ہو۔‘‘

آئینہ یعنی ادب کو کسی جگہ پر غلط طریقہ ( جیسا کہ بہت سارے نو آبادیاتی ادیبوں نے تاریخ اور معاشرے کو غلط بیان کیا ہے) انکے راہ پر گامزن نہ کریں، جس طرح خود آئینے کو چھوٹی سی چوٹ لگے پھر پورے آئینہ عجیب و غریب نمونے بنانا شروع کردیتا ہے۔اسی طرح ادب میں حقیقت کو بیان نہ کرنا ادب کو ٹوٹی ہوئی آئینہ کی طرح بنا دیتا ہے۔

ادب کو آئینہ سمجھنے کا مطلب ہے کہ پورے معاشرے کی آئینہ یعنی وہ آئینہ جو معاشرے کی سارے لوگوں کے چہروں کو دکھاتا ہے۔
اگر اسی طرح بلوچ سماج میں مالی خواہشات کے ساتھ ، فنون اب لوگوں ، رقاص، اداکاروں، ہدایت کاروں، مصنفین ،کو لینے اور ساتھ ساتھ پبلسٹی میں لگ رہی ہیں ،تو انہیں کسی قابل شناخت یعنی تاریخ ، دیش، قوم اور ثقافت و تہذیب کی فکر کبھی نہیں رہے گا۔

ادیب کے پاس سب سے بڑا ہتھیار اس کی دانشمندانہ تحریر ہی ہے، جس سے وہ اپنی قومی آزادی کے لیے جنگ لڑتا ہے۔ یہ جنگ اسے بیک وقت کئی سمتوں میں، کئی پہاڑوں کے اوپر کسی چٹان پر، نوآبادکار کے دماغ میں یاکہ جنگی محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ ادیب تحریر سے انقلاب لاسکتے ہیں ، لوگوں کو شعور کی طرف گامزن کرسکتے ہیں ، اپنی لکھی ہوئی الفاظ سے سماج کے اندر جراثیم کو اکھاڑ کر نئی زندگی بخش دیتے ہیں۔

ادیب یہ جانتے ہیں کہ میری تحریر و شاعری کی طاقت سے بڑی بڑی طاقتیں کمزور ہوکر ہار مانتے ہیں۔

اگر ادیب کا قلم ہی زنگ آلود اور کھوکھلا ہوگا، منافقت اور جھوٹ سے آلودہ ہوگا تو وہ رزمِ ہستی اور بزمِ عالم میں اپنا کردار موثر طور پر کیسے ادا کرے گا؟ ہمارے مصنفین معاشرے میں اپنا صحیح اور فعال کردار ادا کر رہے ہیں؟ سادہ سا جواب ہاں اور نہیں!

وجہ، مسابقت اور اجتماعی مقصد کی جگہ حسد و بغض نے لے لی ہے اور جلد از جلد نتائج اور پبلسٹی حاصل کرنے کی دوڑ نے وقت سے پہلے تخلیق کاروں کو مضمحل نوآبادکاروں کی راہ بنا دیا۔

عالمی تناظر میں مختصر ترین بات کی جائے تو افریقہ اور ویتنام میں بادشاہت کے خاتمے اورانقلاب ویتنام تک ادب اور ادیبوں کا بھی کردار رہا۔ افریقہ کے بعض ممالک فلسطین، ایران، اور باقی نوآبادکاروں کے شکنجوں سے آزاد ہونے والی ممالک کی مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ اسے پہلے یونانی معاشرے میں ادیب کا کردار ایک سنجیدہ لکھاری اور دانشور کا تھا، وہاں اب اس کی حیثیت محض ایک تفریح مہیا کرنے والے کی رہ گئی ہے۔ جدید امریکی ادبی معاشرہ کا ایک طرح کے تذبذب اور الجھاؤ میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اس سے تو یوں لگتا ہے جیسے معاشرتی اور سماجی مقاصد میں ادبی کساد بازاری ایک گلوبل فنامنا ہے۔

یہ کہنا جائز ہے کہ ادیب مختلف اداروں سے جنم لیتے رہے ہیں قدیم، جدید اور مابعد جدیدیت ادیبوں کی تخلیقی اور منطقی انجام، تہذیب و ثقافت بھی ایک دوسرے سے الگ تھے۔ تو ظاہر ہے کہ یہ ایک الگ پر لطف بات ہوگی کہ ہم ہر ایک دور کا مصنف الگ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ مصنفوں نے اپنی محکوم قوموں کی قسمت کو کیسے بدل دئیے اور دے رہے ہیں۔

تو ہمیں چاہیے کہ ہم ہر کسی ادیب کے ارادوں کو جاننا چاہیں تب اس ادیب کے خیالات کا اندازہ لگاتے ہیں۔ کیونکہ ادیب کے نزدیک حالات اور واقعات کو سر سری دیکھنا ایک قدرتی جرم ہے۔

ہر ادیب کا اپنا مشاہدہ، تجزیہ اور وقت و حالات کو بغور مطالعہ کرنے کا ایک تخلیق ہوتا ہے۔ بقول ٹراٹسکی”ہر حقیقی ادیب کو اپنے تخلیقی لمحات کا علم ہوتا ہے۔ اس وقت کوئی مضبوط شے اس کے ہاتھ کی رہنمائی کررہی ہوتی ہے۔” جس آواز کی بات ٹراٹسکی کرتے ہیں، سقراط، افلاطون، ارسطو اور باقی فلسفیوں نے بھی محسوس کی، ایک مقدس آواز ان کی نشونما میں لگا رہتا ہے۔ کہنے کا مقصد ہر حقیقی ادیب بھی ایسے لمحات، وقت و حالات، قدرتی وسائل، نوآبادکاروں، اور محکوم قوموں کی زندگیوں کا تجربہ رکھتا ہے جب ادیب کی ذات سے زیادہ مضبوط کوئی چیز اس کے اندر سے بولنے لگتی ہے جسے “الہام” کہلاتے ہیں۔

اگر معاشرے کی حالات ادیب کے اندر تجسس، ولولہ انگیز ی اور چیزوں کو حقیقی شکل دینے کا بھنبھناہٹ پیدا کریں تو ادیب حقیقت اور جھوٹ کے درمیان کا فرق جان سکتے ہیں۔

اسی نقطہء نظر سے مشیل ڈون لکھتے ہیں کہ “مطالعہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس میں عزم، تنہائی، توجہ، تجسس اور حاضر دماغی کی ضرورت ہے۔”ظاہر ہے کہ ادیب اپنی مقصد کی بنا لکھتے ہیں، اپنی مقصد کی تکمیل کے بارے سوچتے رہتے ہیں تاکہ وہ کب اخذ کر سکیں۔ اگر ادیب اپنی اندر کی آواز کو محسوس نہ کرسکیں تو وہ
کسی بے مقصد چیز کی طرح اپنی مقصد سے ہٹ جائے اس کی کوئی وقعت نہیں رہتی پھر کباڑ خانہ اس کا ٹھکانہ بن جاتا ہے۔

اگر ایک ادیب خود پسندی اور نوآبادیاتی نظام کی بنیاد پر چیزوں کو دیکھ کر لکھنا شروع کردیں تو ادب ادب نہیں ہوسکتا۔ ادیب کی ولیم کی الفاظ کو بہتے ہوئے پانی کی طرح ہونا چاہیے۔

جہاں گندے چیزوں کو اپنی لہروں سے بہا کر لے جائیں۔ ایک تخلیق کار یعنی ادیب کا سماجی ناانصافی کے خلاف آواز نہ اٹھانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ حقیقی آرٹسٹ نہیں بلکہ ایک نوآبادکار سے بدتر ہے.

جاری


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں