بلوچ آزادی پسند رہنما اور بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ڈاکٹراللہ نذربلوچ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں میں پاکستانی نوآبادیاتی منصوبے اور نوآبادیاتی نظام واضح اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ تباہ حال انفراسٹرکچر اورکرپشن زدہ منصوبے سیلاب کے ریلوں میں بہہ گئے۔ دوسری طرف ایک درجن سے زائد ڈیمز ناقص تعمیر کی وجہ سے پانی کا دباؤ برداشت نہ کر سکنے سے ٹوٹ گئے ہیں۔ بلوچستان سیلاب میں ڈو ب چکا ہے لیکن میڈیا اورپاکستانی نظام سیاست میں سیلاب اورسیلاب زدگان کا تذکرہ نظرنہیں آتا۔ یہ بیگانگی اور لاتعلقی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ہماری حیثیت محض ایک غلام قوم کی ہے اور پاکستان کی دلچسپی ہمارے وسائل اور سرزمین تک ہے۔ بلوچ قوم پاکستانی نظام ِ سیاست میں محض ایک نوآبادی ہے۔
بلوچ رہنما نے کہا ہم عالمی امدادی اداروں اورممالک سے اپیل کرتے ہیں کہ سیلاب کے متاثرین کی مدد کے لئے خود آگے آئیں کیونکہ سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں۔ لیکن بلوچ کی مدد اور بحالی پاکستان کے ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ البتہ پاکستان بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے نام پر عالمی امداد بٹورنے کی کوشش ضرور کرے گی۔ ہم واضح کرتے ہیں کہ اگر عالمی اداروں اور ممالک نے پاکستان پر بھروسہ کرکے امداد دی تووہ ہماری بحالی کے بجائے بلکہ جاری فوجی سفاکیت اور بربریت میں اضافے کے لیے استعمال ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو کسی بھی طرف سے کوئی امداد ملے تو اسے بلوچ قوم کے خلاف استعمال کرے گی۔ اس کی واضح مثال دو ہزار تیرہ کا ضلع آواران اور کیچ کا زلزلہ ہے۔ اس زلزلہ کے متاثرین آج بھی بحال نہیں کئے گئے ہیں اور وہ دربدر کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس مد میں پاکستان کو جتنے بھی عالمی امداد ملے ہیں وہ پاکستان نے بلوچستان میں موجود فورسز پر خرچ کی ہیں تاکہ وہ یہاں رہ کر بلوچ عوام پر مظالم، بلوچ نسل کشی اور قبضہ کو جاری رکھیں۔ وہ یہاں رہ کر ایک قاتل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ انسانی جانوں سے کھیل کر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ پہاڑوں اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے بلوچوں کو زبردستی نقل مکانی کرکے انہیں فوجی کیمپوں کے قریب آباد کیا گیا ہے۔ اس طرح سینکڑوں خاندانوں کی ذریعہ معاش زراعت، گلہ بانی سمیت تمام ذرائع کو ختم کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ دو ہزار تیرہ کو کئی ممالک سے پاکستان کو زلزلہ متاثرین کیلئے وافر مقدار میں امداد ملی لیکن وہ متاثرین کی بحالی کے بجائے انہیں دبانے، اور فوجی آپریشن میں تیزی میں استعمال ہوئے۔ ایسے میں سیلاب متاثرین اور بلوچ قوم کو چاہیئے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت امداد اور سپورٹ کا راستہ تلاش کریں۔ عالمی برادری سے اپیل ہے کہ وہ پاکستان کو فنڈز کی فراہمی کے بجائے اپنی تنظیموں کو بلوچستان بھیجیں تاکہ متاثرین کی بحالی کا کام احسن طریقے سے انجام پائے۔
انہوں نے کہا کہ اسی سیلاب اور طوفانی برسات میں جبری لاپتہ افراد کے خاندان اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے سینتیس دنوں سے کوئٹہ میں گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنا دئیے ہوئے ہیں۔ ان کے مطالبات بھی سیدھے سادے ہیں کہ انہیں ان کے پیاروں کے بارے میں بتایا جائے یا عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ لیکن وہ انہیں عدالتوں میں بھی پیش نہیں کر رہے، کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ یہ لوگ کسی جرم کا مرتکب نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ ان پر کوئی ثبوت نہیں پیش کرسکتے۔ انہیں صرف بلوچ ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ ایسے میں عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی مداخلت کی ضرورت ہے تاکہ جبری گمشدگی جیسی گھناؤنی جرم پر پاکستان کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے۔