بلوچستان کے مختلف علاقوں سے پاکستانی فورسز و خفیہ اداروں نے چھ نوجوانوں کو حراست میں لینے کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق کوئٹہ کے علاقے سریاب روڈ پر رات گئے فورسز نے ہاسٹل پر چھاپہ مارتے ہوئے چار طلباء کو تشدد کے بعد اپنے ہمراہ لے گئے۔
سریاب ہاسٹل سے جبری لاپتہ ہونے والے ایک نوجوان کی شناخت محمد امین ولد ممتاز حسن کے نام سے ہوئی جو سوراب کا رہائشی ہے تاہم دیگر تین افراد کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے۔
دریں اثناء ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت سے یوسف ولد نثار نامی طالب علم کو پانچ روز قبل جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔
لاپتہ نوجوان طالب علم کے لواحقین کا کہنا ہے کہ 11 اگست 2022 کی رات 9 بجے جوسک فٹبال گراؤنڈ کے مقام پر پاکستانی فورسز کی چھ گاڑیوں پر مشتمل اہلکاروں نے چھاپہ مار کر فرسٹ ایئر کے طالبعلم یوسف نثار کو حراست میں لے کر لاپتہ کردیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔
انہوں نے کہاہے کہ اگر یوسف نثار کسی قسم کے جرم میں ملوث ہیں تو اس کو ملک کی قانون کے مطابق منظر عام پر لے آئیں عدالت میں پیش کرکے مقدمہ چلائیں۔
ادھر نوشکی سے ایک نوجوان کے جبری گمشدگی کی اطلاعات موصول ہوئی ہے۔ نمائندہ ٹی بی پی کے مطابق نوشکی کے علاقے قادر آباد سے تعلق رکھنے والے حبیب ولد محمد عظیم کو عید الاضحیٰ سے ایک روز قبل پاکستانی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا جس کے بعد مذکورہ نوجوان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں مل سکی ہے۔
خیال رہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی کے واقعات تواتر کے ساتھ رونماء ہورہے ہیں، اس سے قبل حالیہ دنوں آواران، خاران، کیچ، مستونگ اور کراچی سے چھ افراد جبری گمشدگی کا شکار ہوئیں۔
گذشتہ دنوں جبری لاپتہ ہونے والوں میں کراچی سےجمعیت اہل حدیث بلوچستان شیخ ایاز، آواران جھاؤ سے تین افراد اسلام ولد حضور بخش، اعظم ولد جمیل، یاسین ولد رحیم بخش، کیچ تمپ پل آباد سے محسن ولد عبدالصمد، خاران سے سہیل بلوچ ولد عبدالرحمان شامل ہیں۔
دوسری جانب تین سال قبل پنجگور سے جبری لاپتہ دو نوجوان قاسم اور حسام بلوچ بازیاب ہوگئے جبکہ سال 2021 میں کوئٹہ سےجبری گمشدگی کے بعد سی ٹی ڈی کی تحویل میں دیئے جانے والا خضدار کا رہائشی نوجوان بلال بلوچ بھی بازیاب ہوگیا۔-
دریں اثناء دارالحکومت کوئٹہ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج جاری ہے۔ لواحقین گذشتہ ایک مہینے سے کوئٹہ ریڈزون میں گورنر ہاؤس کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کرکے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔