انقلابی ورثہ | نواب اکبر خان بگٹی

1630

نواب اکبر خان بگٹی، سیاسی جدوجہد سے شہادت تک

تحریر: سلیمان ہاشم

دی بلوچستان پوسٹ – انقلابی ورثہ

نواب اکبر خان بگٹی سے میں زندگی میں کبھی نہیں ملا۔ جب وہ گورنر بن کر گوادر تشریف لائے تو ملا فاضل چوک پر عوام کا جمِ غفیر تھا۔ وہیں دور سے میں نے ان کو پہلی بار اسٹیج پر دیکھا۔ لیکن مجھے اس وقت ان کے گورنر بننے سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور نہ خوشی تھی۔ مجھے افسوس تھا کہ انھیں اپنے دوستوں سے ایسا سیاسی اختلاف تھا کہ انھیں چھوڑ کر وہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے مل گئے جو اپنے غلط مشیروں کی وجہ سے وزیراعظم بننے کے بعد بلوچستان کی عوامی حکومت کے خلاف سازشیں کر رہے تھے، ایسے میں شہید نواب کو ان کا ساتھ نہیں دینا چاہیے تھا۔ بالآخر نو ماہ کی حکومت کے بعد گورنر غوث بخش بزنجو اور سردار عطا اللہ مینکگل کی عوامی حکومت کو ختم کر دیاگیا اور بلوچستان کی علحیدگی کے لیے عراقی اسلحہ منگوانے کا الزام لگا کر ان کی عوامی نمائندگی سے انھیں محروم کر دیا گیا۔

نواب اکبر خان بگٹی کا نیپ کے لیڈروں سے اختلاف تھا، اسی بنا پر انھوں نے بلوچستان کی گورنر شپ قبول کی لیکن جلد نواب اکبر بگٹی کو اصل حقیقت کا ادراک ہوا تو انھوں نے گورنرشپ سے استعفیٰ دیا اور اپنی غلطی کا انھیں احساس ہوا لیکن وہ اس دوران 10 ماہ تک گورنر رہے۔

اگست کا مہینہ بلوچوں کے لیے کچھ اچھا مہینہ ثابت نہیں ہو سکا۔ یوں تو بلوچوں نے 11 اگست کو اپنی آزادی کا دن منایا لیکن ان کی آزادی جلد چھین لی گئی۔

نواب اکبر بگٹی 12 جولائی 1927ء بروز منگل بارکھان کے حاجی گوٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ڈیرہ بگٹی سے حاصل کی۔ بعد میں ان کے والد محراب خان نے ایچی سن کالج لاہور میں انھیں داخل کروایا۔ وہ ابھی زیرِتعلیم تھے کہ 1939ء میں ان کے والدانتقال کر گئے۔ تب نواب صاحب نے نوابی کی ذمہ داری سنبھالی اور تعلیم مکمل کر نے کے بعد 1944ء کو باقاعدہ بگٹی قبیلے کےسردار بنائے گئے۔

28 نومبر 1946ء کو مری بگٹی قبیلے کے دو سردار دودا خان مری اور نواب صاحب نے ایک درخواست کے ذریعے برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے قبائلی علاقے بھی قلات فیڈریشن میں شامل کیے جائیں۔ اس وقت بلوچستان کے دو حصے تھے ۔ قلات اور برٹش بلوچستان۔ قیام پاکستان کے بعد 1950ء کو نواب اکبر بگٹی ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کونسل رکن بننے کے دوران مشیر بنے۔ ملک فیروز خان مسلم لیگ (ن) کی کابینہ میں بحیثیت نائب وزیر دفاع شامل رہے۔ اس عہدہ پر ایک سال تک فائز رہے۔

شہید نواب اکبر بگٹی کو سب سے زیادہ مسائل اس وقت درپیش آئے جب 1955ء میں بلوچستان کو ون یونٹ کے تحت مغربی پاکستان کے صوبے میں یکجا کر دیا گیا۔ 1956ء میں قائم شدہ (نیپ) نیشنل عوامی پارٹی کو بلوچستان میں اس وقت مزید پذیرائی ملی جب ایوب کے دورِ حکومت کے آخر میں حکومتی جبر و تشدد کے باعث تین سردار نواب خیر بخش مری ، نواب اکبر خان بگٹی اور سردار عطااللہ مینگل نیپ میں ہم سفر ہوگئے تو اس وقت کا مشہور نعرہ تھا؛ “اتحاد کا ایک نشان، عطاءاللہ، خیر بخش، اکبر خان۔

ایوبی حکومت کے خاتمے کے بعد ہی نوب مری اور سردار مینگل نے باقاعدہ نیپ میں شمولیت اختیار کی۔ نواب اکبر خان بگٹی اگر چہ ایبڈو کے سبب پارٹی میں شامل نہ ہو سکے لیکن وہ نیپ کی مکمل حمایت کرتے رہے۔ اگست 1962ء میں ایوب خان ملک میر خان کے ساتھ کوئٹہ آئے اور مسلح افواج کی حفاظت میں نہایت اشتعال انگیز تقریر کی۔

اگلے روز بلوچوں نے جوابی جلسہ کیا جن میں سندھ کے سیاسی رہنما میر رسول بخش تالپور بھی شامل تھے۔ جلسہ میں ایوب خان کی آمریت کو للکارا گیا تو بلوچستان کے دیگر رہنماوں سمیت نواب صاحب بھی گرفتار ہوئے۔ ان پر بغاوت اور قتل کا الزام لگایا گیا۔ نواب صاحب سینٹرل جیل کراچی اے کلاس وارڈ نمبر 19میں قید رہے۔

مارشل لا کے بعد ایک قتل کے الزام میں گرفتار ہوئے اور چودہ سال قید کی سزا دی گئی۔ لیکن وسط جولائی 1961ء میں رہا ہو گئے۔ دسمبر 1970ء کی انتخابی مہم کے دوران نواب مری اور سردار مینگل نے نیپ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کر لی۔ اس وقت نواب صاحب شہید پر ایوبی دور حکومت میں ایبڈو کی پابندی لگائی گئی تھی ۔ وہ دس سال تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے تھے۔

16دسمبر 1973 کو بلوچستا ن کے گورنر مقرر ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں نواب صاحب کو گورنر بلوچستان مقرر کیا گیا۔ پھر اختلافات پر استعفٰی دے کر گھر جا کر بیٹھے۔ 1980ء میں نواب صاحب نے مارشل لا حکومت پر سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی اور ضیا کے دور میں اردو بولنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے ہر جگہ اپنی مادری زبان میں تقریریں کیں۔ پھر 1988ء کے انتخابات میں دوبارہ اردو بولنا شروع کیا۔

1988ء کے انتخابات میں نواب صاحب نے آزادانہ طور پر حصہ لیا۔ انھوں نے بلوچ نیشنل الائنس کی رہنمائی کی۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ مقرر ہوئے۔

پھر 16 اگست 1990ء کو کوئٹہ میں قریبی احباب سے مشورے کے بعد جمہوری وطن پارٹی تشکیل دی۔ اکتوبر 1990ء کے انتخابات کے بعد پاکستان میں جو حکومتی ڈھانچے قائم ہوئے، تمام پارٹیاں برسراقتدار تھیں لیکن جمہوری وطن پارٹی واحد سیاسی جماعت تھی جو حزبِ اختلاف میں بیٹھی۔ 1993ء میں جمہوری وطن پارٹی نے ایک مرتبہ پھر اپوزیشن کی حیثیت برقرار رکھی۔ 1997ء کے انتخابات میں حصہ لینے سے نواب صاحب ممبر نیشنل اسمبلی اور بطور صوبائی ممبر نواب سلیم بگٹی کا انتخاب عمل میں آیا۔

1993ء میں بگٹی جھکرانی جنگ ہوئی۔ کچھ عرصے بعد 2003 میں بگٹی مزاری جنگ ہوئی، جس میں گیس پائپ لائن تباہ ہوئیں۔ حکومت کو 12 کروڑ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ کرفیو نافذ ہوا۔ نواب صاحب نے اس جنگ کو خوش آئند قرار دیا۔ بعد ازاں اطلاعات کے مطابق بگٹی مزاری کے باہمی مذاکرات کی وجہ سے ان کی دشمنی ختم ہوگئی۔

جنوری 2005ء میں ڈاکٹر شازیہ ریپ کیس نے پورے بلوچستان میں آگ لگا دی۔ اس واقعہ کے بعد ڈیرہ بگٹی میں حالات کشیدہ ہوگئے۔7 جنوری 2005ء کو بگٹیوں نے گیس پائپ لائن اڑا دی۔ جس سے پاکستان میں گیس کی سپلائی معطّل ہوگئی۔ 7 جنوری 2005ء سے 11 جنوری تک راکٹ حملوں میں پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ، پی پی ایل کو 230 ملین روپے جب کہ گیس سپلائی معطّل ہونے سے پاکستان کو 120 ملین روپیہ کا یومیہ نقصان ہوا تھا۔

اس دوران ایف سی نے کنٹرول سنبھال لیا۔ 15جنوری کو نواب بگٹی نے کہا کہ بلوچستان فتح کرنے کے نتائج خطرناک ہوں گے۔ غیرت مند بلوچ فوجی آپریشن کی بھر پور مزاحمت کریں گے، بلوچ فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

ہر دن سورج طلوع ہونے کے ساتھ اس بوڑھے شیر کے حوصلے بلند ہوتے گئے۔ 18فروری کو نواب صاحب نے کہا، حکومت مظاہروں کو نہیں بم دھماکوں کو سنتی ہے۔

ڈاکٹر شازیہ کیس سے نواب صاحب نے بلوچ روایات کو نئی زندگی دی۔ 10 جنوری کو انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شازیہ کو کیپٹن حماد کی قیادت میں 3 اہلکاروں نے رات بھر زیادتی کا نشانہ بنایا لیکن کیس نہیں دب سکا۔ بلوچ اپنی سرزمین و علاقے میں اس قسم کے شرمناک معاملات کو کسی طوربرداشت نہیں کریں گے۔ بلوچوں کی رضامندی کے بغیر وسط ایشیا سے گیس لائن بھارت نہیں جا سکتی۔

دوسری جانب لڑائی میں شدت آ گئی مگر نواب بگٹی کے حوصلے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی گونج سے پست ہونے کی بجائے بلند ہوتے گئے۔
17مارچ کو سانحہ ڈیرہ بگٹی پیش آیا۔ ڈیرہ بگٹی میں گھروں پر بمباری کی گئی۔ جس میں70 سے زائد افراد شہید ہوئے۔گولے ڈیرہ بگٹی کی آبادی اور نواب صاحب کے قلعے میں گرے۔ ان کے پرسنل سیکریٹری رفیق بگٹی زخمی اور دو افراد شہید ہوگئے۔ وہ بی بی سی کو انٹرویو دے رہے تھے کہ گولے کی آواز آئی۔ نواب صاحب نے کہا، ہم پر جنگ مسلّط کر دی گئی ہے۔

اس کے بعد نواب صاحب نے 80 سال کی عمر میں پہاڑوں کا رخ کیا اور بہادری کے ساتھ کا مقابلہ کرتے رہے۔ بالآخر فوج نے شہری علاقوں پر بمباری کا فیصلہ کیا اور نواب صاحب کے قلعہ پر گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بمباری کی گئی۔

نواب بگٹی نے شہدائے ڈیرہ بگٹی کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ 17مارچ 2005ء دراصل بلوچ قوم کی قربانیوں کی تاریخ کے اندر ایک نئے باب کا اضافہ اور قومی حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کے مشعل کے اندر ایک چنگاری کی مانند ہے جس نے قومی بقا کے گرد اندھیروں کے اندر روشنی کی کرن پیدا کر دی جس سے اس آہنگ کو نیا ولولہ ملے گا۔

دوسری جانب بلوچ سیاسی، سماجی تمام مکتب فکر کے لوگ نواب صاحب کے لیے دعاگو تھے۔ بگٹی قبائل اور دیگر بلوچ قبیلوں نے اس کٹھن موقع پر نواب صاحب کی حفاظت کا ذمہ لیاا ور انھیں ڈاڈا کے خطاب سے نوازا۔

حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ کوہلو، ڈیرہ بگٹی کے گرد جنگ شدت سے جاری تھی۔ شہید نواب اکبر بگٹی، بلو چ قوم کی قیادت سنبھالے ہوئے تھے۔ شہری علاقوں پر بلوچ سرمچاروں کی کاروائیوں میں شدت آئی۔

نواب صاحب نے پیراں سالی میں مزاحمت کی اور بالآخر 26 اگست 2006ء کو تراتانی کوہِ سلیمانی میں ان پر شدید بمباری کرنے کے ساتھ کلسٹر بموں سے حملہ کیا گیا۔ اس طرح انھوں نے اپنے کئی سرمچاروں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کیا اور بلوچ تاریخ میں اپنا نام رقم کر گئے۔ نواب صاحب کی شہادت نے پوری قوم کو نیند سے جگا دیا۔