گمشدہ/مردہ/زندہ ظہیر بلوچ ۔ ذوالفقار علی زلفی

633

گمشدہ/مردہ/زندہ ظہیر بلوچ

تحریر: ذوالفقار علی زلفی

دی بلوچستان پوسٹ

انجینئر ظہیر بلوچ نے بنگلزئی قبیلے کے سردار نور احمد بنگلزئی و اپنے بھائی اور کزن کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کی ہے ـ اسپریس کانفرنس کے چیدہ چیدہ نکات پر بات کریں گے اور سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ یہ کیا ہورہا ہے ـ

ظہیر بلوچ کے مطابق:

*وہ گزشتہ سال اکتوبر کو ایک ایجنٹ کے ساتھ ایران گیا تھا

*ایجنٹ نے اسے نوشکی سے اٹھا کر تفتان پہنچایا پھر تفتان سے وہ ایک گاڑی میں بیٹھ کر ایران چلا گیا

*ایرانی سرحدی فورس نے انہیں گرفتار کرکے ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھیں اور ایک خفیہ جگہ لے گئے

*ساڑھے نو یا دس مہینے بعد دوبارہ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انہیں پاکستانی سرحد پر چھوڑ دیا گیا

*وہ تفتان سے لفٹ لے کر نوشکی پہنچے اور کزن کو کال کی پھر کزن کے ساتھ گھر چلے گئے

اب آئیے ظہیر بلوچ کی کہانی کا جائزہ لیتے ہیں:

تفتان پاکستان کے انتظامی صوبہِ بلوچستان کا سرحدی قصبہ ہے اور خاصا حساس علاقہ ہے ـ یہاں جگہ جگہ پاکستانی فوجیگھومتے ہیں ـ تفتان آنے والوں کو نوکنڈی سے یہاں تک پہنچتے پہنچتے کم از کم چار یا پانچ فوجی چیک پوسٹوں پر بتانا پڑتا ہے کہ وہتفتان کیوں جا رہا ہے ـ اس کی شناختی دستاویزات کی بھی سخت چیکنگ ہوتی ہے ـ تفتان تین قسم کے لوگ جاتے ہیں ـ ایک : ایرانجانے والے جن کے پاس پاسپورٹ ہونا چاہیے ـ دوم : سرحدی تاجر یا ٹرک ڈرائیور و ٹرک کا عملہ ؛ ان کے پاس بھی مطلوبہ دستاویزاتلازمی ہونے چاہئیں ـ سوم:  تفتان کے رہائشی یا کسی تفتانی کا مہمان ـ

غیرقانونی طور پر ایران جانے والے عموماً تفتان کے قصبے میں نہیں جاتے کیوں کہ اس چھوٹے سے قصبے میں پکڑے جانے کا خدشہرہتا ہے ـ ظہیر بلوچ اور دیگر افراد بہرحال سلیمانی چادر اوڑھ کر نہ صرف تفتان گئے بلکہ بڑے اہتمام کے ساتھ ایک ایرانی گاڑی میںسوار ہوکر بارڈر بھی کراس کر لیا ـ پاکستان کے سرحدی محافظوں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے ـ کیا وہ اتنے نالائق ہیں؟

ایران کے اندر اور سرحد پر غیرقانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے پاکستانی تقریباً روز گرفتار ہوتے ہیں ـ گرفتار شدگان زیادہ تر غیربلوچ ہوتے ہیں ـ سرحد کے دونوں اطراف چوں کہ بلوچ رہتے ہیں اس لئے ایرانی فورسز پہلی نظر میں بلوچ کی تشخیص نہیں کرپاتے ـپاکستان کے زیرِانتظام بلوچستان کے باشندے زیادہ تر فارسی نہ آنے یا غلط فارسی بولنے کی وجہ سے پکڑے جاتے ہیں ـ ایرانی گرفتارشدگان کواردو گاہلے جاتے ہیں جو غیرقانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کے لئے مختص ہے ـاردو گاہکے نام سے موسوم یہقید خانہ مغربی بلوچستان کے تقریباً ہر شہر میں موجود ہے ـ  یہ چوں کہ ایک عام قید خانہ ہے اس لئے اسے خفیہ رکھنے کی کوئیضرورت نہیں ہے ـ جب خفیہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے تو آنکھوں پر پٹی باندھنے کی کیا ضرورت؟ ـ

اردو گاہ میں ضروری تحقیق کی جاتی ہے کہ آنے والا کوئی جرم کرنے تو نہیں آیا ـ اس میں مشکل سے ایک ہفتہ ہی لگتا ہے ـ زیرِحراست افراد سے ملنے والی اشیا کی لسٹ بنائی جاتی ہے ـ اس کے بعد تمام گرفتار شدگان سے کھانے پینے اور سفری اخراجات کےپیسے وصول کئے جاتے ہیں ـ ان کا نام پتہ لکھا جاتا ہے ـ اس کے بعد انہی کے پیسوں سے بس کا انتظام کرکے انہیں تفتان بارڈر پرپاکستانی حکام کے حوالے کیا جاتا ہے ـ گرفتار شدگان سے برآمد ہونے والی اشیا کا بھی تبادلہ کیا جاتا ہے جن میں موبائل فون بھیشامل ہے ـ پاکستانی حکام سے تحویل کے دستاویزات پر دستخط لئے جاتے ہیں ـ یہ پورا عمل قانون کے دائرے میں ہوتا ہے ـ آنکھوں پرپٹی باندھ کر خفیہ طریقے سے چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ـ

پاکستانی فوج انہیں ایف آئی اے کے حوالے کرتی ہے ـ ایف آئی اے ان کے خلاف پاسپورٹ ایکٹ کے تحت غیرقانونی طور پر سرحد عبورکرنے کی رپورٹ درج کرکے اپنے ہمراہ تفتان سے کوئٹہ لاکر انہیں عدالت میں پیش کرتا ہے ـ عدالت جرمانہ یا قید کی سزا سناتی ہے ـعموماً جرمانہ کرکے انہیں چھوڑ دیا جاتا ہے ـ

ظہیر بلوچ کی کہانی میں اس پورے قانونی عمل کا کوئی سراغ نہیں ملتا ـ ایرانی غیرقانونی طور پر بلاوجہ انہیں دس مہینے خفیہ قیدخانے میں رکھتے ہیں ـ جس کا نہ کوئی امکان ہے اور نہ ہی ضرورت ـ پھر وہ بڑی رازداری کے ساتھ انہیں سرحد پر چھوڑ دیتے ہیں ـپاکستانی سرحدی محافظین بھی ان سے کوئی تعرض نہیں برتتے ـ وہ بڑے آرام سے درجنوں چیک پوسٹوں سے گزر کر،  بنا کسیسوال کا جواب دیے نوشکی پہنچتے ہیں ـ وہاں سے کزن کو کال کرکے کوئٹہ پہنچ جاتے ہیں ـ

تفتان سے لوگ کسی انجان شخص کو لفٹ بھی نہیں دیتے ـ یہ بعض صورتوں میں خطرناک ہوتا ہے ـ بلوچستان کی حساس جنگیصورت حال کے باعث کسی کو کیا پتہ لفٹ لینے والا کون ہے ـ بلاوجہ کون مصیبت کو دعوت دے گا ـ

ظہیر بلوچ جو کہانی سنا رہے ہیں وہ ہر لحاظ سے بکواس ہے ـ وہ نہ صرف ایرانی فورس بلکہ پاکستانی فوج اور ایف آئی اے کو بھیچارج شیٹ کر رہے ہیں ـ دو ممالک کی سرحد کوئی چاچا جی کا گھر نہیں ہے ـ

بلوچستان حکومت جو جوڈیشل کمیشن بنا رہی ہے وہ ظہیر بلوچ سے بھی باز پرس کرے کہ وہ کہاں تھے اور اس وقت کیوں گھرپہنچے جب فوج اور حکومت عوامی دباؤ کا شکار ہیں ـ اس کے ساتھ ساتھ میر ضیا لانگو کو بھی شاملِ تفتیش کیا جائے ـ انہوں نےسرکاری وسائل ہوتے ہوئے ایک زندہ شخص کو مردہ کیسے قرار دے دیا اور ان کو دیشت گرد کے نام سے کیوں اور کس کے کہنے پرپکارا؟  ـ

یہ بھی پتہ کروانا چاہیے ظہیر بلوچ کے نام سے جس شخص کی تدفین ہوئی ہے وہ بیچارہ کون تھا ـ سردار بنگلزئی کی بکواس پر کاندھرنے کی ضرورت نہیں ہے ـ ایسے سردار دو دو ٹکے پر برائے فروخت ہیں ـ

اس کہانی میں اور بھی جھول ہیں ـ ان پر آگے چل کر بات ہوگی


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں