کوئٹہ: زیارت واقعے کیخلاف احتجاج، مظاہرین پر آنسوں گیس شیلنگ و تشدد

331

گذشتہ دنوں زیارت میں جعلی مقابلے میں پہلے سے لاپتہ افراد کے قتل کے خلاف آج لواحقین کی جانب سے ہونے والے احتجاج پر پولیس نے دھاوا بول کر شرکا پہ شدید لاٹھی چارج اور آنسوں گیس فائر کرکے انہیں زخمی کردیا۔

لاٹھی چارج اور آنسوں گیس کی شیلنگ کی وجہ سے وی بی ایم پی کے وائس چئیرمین ماما قدیر سمیت متعدد خواتین و بچوں کی حالت غیر ہوگئی جبکہ کئی افراد بیہوش ہوگئے۔

سوشل میڈیا پہ وائرل ہونے والے ویڈیوز میں پولیس کی جانب سے لواحقین پہ تشدد و آنسوں گیس فائر کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ ایک وائرل تصویر میں لاپتہ کفایت اللہ کی اہلیہ کرن کی زخمی ہاتھ کو بھی دیکھا جاسکتا ہے جس سے خون بہہ رہی ہے۔

لواحقین کا کہنا ہے کہ جس طرح زیارت میں پہلے سے زیر حراست لاپتہ افراد کو قتل کیا گیا ہے ہمیں ڈر ہے ہمارے جتنے بھی پیارے اس وقت فورسز کے تحویل میں ہیں ان کے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔

لواحقین کا کہنا ہے کہ زیارت میں جعلی مقابلے میں قتل ہونے والے انجینئر ظہیر کی ہمیشرہ سراپا احتجاج تھی اور اسی مہینے وہ عید کے دن میں بھی احتجاج میں شریک تھی کہ اس کو انصاف دیا جائے اس کے بھائی کو منظر عام پہ لایا جائے مگر اس کے بھائی کی مسخ شدہ لاش دی گئی۔

خیال رہے کہ بارہ اور تیرہ جولائی کے درمیانی شب بلوچ جنگجوؤں نے پاکستانی فورسز کے ایک حاضر سروس کرنل کو اس وقت اغواء کرلیا جب وہ اپنے خاندان کے ہمراہ بلوچستان کے علاقے زیارت کی جانب سفر کررہے تھے۔

مذکورہ کرنل کے اغواء کی ذمہ داری بلوچستان میں متحرک آزادی پسند مسلح تنظیم بی ایل اے نے قبول کرلی جبکہ بعدازاں فورسز نے مذکورہ کرنل کے لاش کو برآمد کرلیا۔

بی ایل اے کی جانب سے میڈیا کو بیجھے گئے ایک بیان کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا، بلوچ لبریشن آرمی کے ایک اہم ہدف تھے اور بی ایل اے کی انٹیلی جنس یونٹ نے ان پر نظر رکھا ہوا تھا ۔ 12 جولائی کو دن بھر انکا تعاقب کیا گیا اور آخر کار انہیں ایک ایسے علاقے میں گرفتار کیا گیا، جہاں عوام کے لیے خطرہ کم سے کم تھا۔

بی ایل اے کے مطابق کرنل لئیق کو بلوچستان پر قابض فوج کا ایک افسر ہونے، معصوم بلوچ خواتین و بچوں کی جبری گمشدگیوں، بلوچ نسل کشی اور دیگر جرائم سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں براہ راست ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں بلوچ قومی عدالت میں پیش کیا گیا اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقع دیا گیا۔ جہاں انہوں نے اپنے تمام جرائم کا اعتراف کیا، جسکی پاداش میں انہیں بلوچ قومی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی۔ جسکے فوری بعد سزا پر عملدرآمد کیا گیا۔

فورسز نے کرنل لئیق کی اغواء کے خلاف مذکورہ علاقے میں بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر نے دوران آپریشن نو افراد کو مارنے کا دعوی کیا تھا تاہم بی ایل اے نے آئی ایس پی آر کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مارے جانے والے افراد کا بی ایل اے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بی ایل اے نے کہا تھا کہ ہرنائی اور زیارت کے علاقوں میں نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کو شہید کرنے کا پاکستانی دعویٰ محض فوج کا ایک پروپگنڈہ کا حربہ ہے، جسکا مقصد بلوچستان میں اپنی ناکامیوں اور شکست کو چھپانا ہے۔

بی ایل اے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس پورے علاقے میں ہزاروں فوجی، درجنوں ہیلی کاپٹر و ڈرون تعینات کرنے کے باوجود، دشمن فوج بی ایل اے سرمچاروں کو روکنے میں ناکام رہی، بلوچ سرمچار کامیابی کے ساتھ اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد آسانی سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اپنی اس ناکامی کو چھپانے کیلئے پاکستانی فوج نے ممکنہ طور پر جبری گمشدگی کے شکار بلوچوں کو شہید کرکے انہیں بلوچ سرمچار ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔

ابتک زیارت میں جعلی مقابلے میں قتل ہونے والوں میں سے سات کی شناخت ہوچکی ہے جو پہلے سے فورسز کے تحویل میں تھے اور ان کے نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہیں، ان لوگوں کے نام لاپتہ افراد کے فہرست میں شامل ہونے کی تصدیق بلوچستان حکومت کے مشیر برائے داخلہ ضیاء لانگو نے بھی گذشتہ روز کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا تھا۔

گذشتہ روز وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز ، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچ یکجہتی کمیٹی، بلوچ وومن فورم، بی ایس او اور بی ایس او پجار کا ایک مشترکہ اجلاس وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین نصر اللہ بلوچ کے سربراہی میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں مشترکہ طور پر یہ فیصلہ لیا گیا کہ سیکورٹی فورسز کی جانب سے لاپتہ افراد کو شہید کرکے لاشیں پھینکنے کے خلاف کل یعنی 21 جولائی کو 12 بجے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔