کراچی میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے قائم علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ آج آٹھویں روز بھی جاری رہی- جبری گمشدگی کے شکار بلوچوں کے لواحقین نے سندھ حکومت کی جانب مذاکرات کے آغاز کا خیرمقدم کیا-
کراچی احتجاج پر بیٹھے لاپتہ افراد کے لواحقین نے گزشتہ روز سندھ حکومت کی ہدایت پر ہونے والے مذاکرات کے آغاز کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت کے اس عمل سے ان کی امیدیں مضبوط ہوگئیں ہیں-
کراچی احتجاج پر بیٹھے لواحقین میں کراچی کے علاقے گلستان جوہر سے لاپتہ ہونے والے عبدالحمید زہری، کراچی کے علاقے ملیر سے جبری گمشدگی کا شکار سعید احمد ولد محمد عمر، ماڑی پور سے لاپتہ کئے گئے محمد عمران، لیاری سے لاپتہ شوکت بلوچ اور رئیس گوٹھ کراچی سے جبری گمشدگی کے شکار ہونے والے نوربخش ولد حبیب کے لواحقین شامل ہیں۔
لواحقین نے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ حکومت رواں سال کراچی سے جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے تمام افراد کو باحفاظت رہائی کو یقینی بنائے۔ لواحقین نے کہا کہ جبری گمشدگی کئے گئے تمام افراد وہ بے قصور اور بے گناہ لوگ ہیں۔
یاد رہے کراچی سے جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین نے گزشتہ روز سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام سے ایس ایس پی ساوتھ کے دفتر میں ملاقات کی۔ سندھ حکومت کی ہدایت پر سندھ پولیس اور بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کراچی سے لاپتہ ہونے والے افراد کو جلد بازیاب کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی-
احتجاج میں شامل بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آمنہ بلوچ کا کہنا تھا لواحقین کوئی شوق سے احتجاج نہیں کررہے ہیں وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کررہے ہیں جو ان کا آئینی و قانونی حق ہے آمنہ بلوچ نے حکام سے مطالبہ کیا کہ جمہوری جدوجہد کا احترام کیا جائے اور قانون و آئین کے دائرے میں رہ کر سندھ میں لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائیں اور ہماری جمہوری اور قانونی تحریک کو دبانے کے لئے طاقت کا استعمال نہ کریں۔