ڈوبتا بلوچستان – یوسف بلوچ

440

ڈوبتا بلوچستان

تحریر: یوسف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یوں تو حالیہ مون سون کی بارشوں کے پیش نظر گوادر میں 52، پسنی میں 43، قلات میں 28، تربت میں 21، خضدار میں 13، جیوانی میں 09،لسبیلہ میں 07، سبی میں 02 ملی میٹر پانی ریکارڈ کی گئی لیکن بہرحال بلوچستان میں ڈیموں کی ناقص تعمیر، نکاسی آب کی عدم سہولیات اور زمینی روابط کی سڑکوں نے ہر جگہ بارش کی طاقت کو یکساں محسوس کرکے ایک ساتھ مصیبتیں برداشت کی ہیں۔

گوادر جسے سنگاپور بھی کہا جاتا ہے۔ بہترین بندرگاہ کی بدولت معاشی حب اور پتہ نہیں گوادر کو دو ہزار کلومیٹر دور جاننے والے کیا کیا القابات سے نوازیں گے لیکن گوادر کے مرکزی شہر کا فاضل چوک کراچی کی لیاری کا منظر ہر باران رحمت میں پیش کرتا ہے۔

محکمہ داخلہ بلوچستان اور پی ڈی ایم اے کی رواداد ہے کہ لسبیلہ میں پچاس خاندان اور تربت میں پچاس ہزار متاثرین محفوظ مقامات پر منتقل کر دیے جا چکے ہیں اور فی کس دس لاکھ روپے بھی دیے گئے ہیں۔

تربت و گوادر کو کراچی تک زمینی راستہ فراہم کرنے والا حب پُل زمین بوس ہو چکی ہے۔ حب و لسبیلہ سمیت کراچی والے نہ اس پار آ سکتے ہیں اور نہ ہی مکران واسی اُس پار جانے کے اہل ہیں۔ دونوں اطراف زمینی رستہ کٹ چکی ہے اور حب ڈیم و قریب و جوار کے باسی سر بہ سجود، ہاتھ بہ دعا اور زبان پروردگار سے مصیبتوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

یہی احوال لسبیلہ سے اُس پار کراچی کا بھی ہے۔ سرکار کی تمام تر مشینری برسات کے بعد کراچی میں بنی دریاؤں کو نیست و نابود کرنے میں لگے ہیں اور پولیس صحافیوں کو بوٹ دینے میں لگی ہے تاکہ وہ اپنے روزی روٹی کا بندوبست کے ساتھ دنیا کو نئی بنی کراچی کے دریا دکھا سکیں۔

تعجب اگر سر اٹھانے کی کوشش کرے تو یہ کہہ کر چپ کرا دی جیئے گا کہ سرکاری اقدامات بارش کے بعد بنی دریاؤں، سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو محفوظ مقامات تک پہنچا کر مالی امداد تھما کر راشن دے کر معمہ حل کرنا ہے لیکن بارش سے پہلے معیشت کا یہی حصہ بچا کر کام ایمانداری سے ہرگز نہیں کرنا۔

سیلاب کی طاقت تمام تر سہولیات کو بگاڑ سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں سیلاب اگر بوندا باندی میں منتقل کیوں نہ ہو جائے واپڈا کی بجلی اور فائبر آپٹکس منقطع ہوکر سیلاب کی بو اہلیان تک پہنچانے میں کسی حد نہیں چھوڑتے۔

اور بارش سے ڈوبے لوگ بس بلوچ ہوں بھلے ہی ڈی جی خان اور ڈیرہ بگٹی دو مختلف صوبوں کی الگ الگ حدود کیوں نہ ہوں۔ بارش ان کے لیے موت ہی ثابت ہو رہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں