رواں سال 8 جولائی کو آذربائیجان کے دارالحکومت باکو سمندر میں ڈوب کر جانبحق ہونے والے بسیمہ کے رہائشی ثاقب بلوچ کو آج انکے آبائی گاؤں میں سپر خاک کردیا گیا انکی لاش گذشتہ روز آذربائیجان سے پاکستان لائی گئی تھی-
ثاقب بلوچ کی لاش گذشتہ جمعے کی روز آذربائیجان کے دارالحکومت باکو کے سمندر سے وہاں کے پولیس نے برآمد کیا تھا-
آذربائیجان انتظامیہ کے مطابق بلوچ کارکن کی موت سمندر میں ڈوبنے کے باعث پیش آئی ہے جب وہ وہاں نہا رہے تھیں۔ آذربائیجان انتظامیہ نے میڈیکل رپورٹ میں بلوچ کارکن کی موت کو حادثہ قرار دیا ہے-
پولیس نے ثاقب کریم کے خاندان کو بتایا کہ واقعہ باکو شہر کے قریب شخ بیچ پر ہوا ہے جب جانبحق شخص پانی میں نہا رہا تھا، زیادہ گہرائی تک جانے کے بعد وہ باہر نہیں آسکیں جس کے باعث انکی موت ہوئی-
بیرون ممالک جلا وطن بلوچ کارکنوں کی ایک جیسی ہلاکت کا معمہ:
بلوچ سیاسی حلقوں میں بلوچ کارکن ثاقب بلوچ کے پراسرار موت پر شک شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے، بلوچ سیاسی حلقوں کو خدشہ ہے کہ ثاقب بلوچ کے موت کے پیچھے وہی محرکات ہوسکتے ہیں جو اس سے قبل کینیڈا میں کریمہ بلوچ اور یورپی یونین ملک سویڈن میں ساجد بلوچ کے ہلاکت کے واقعہ میں ہوا ہے-
بلوچ سیاسی حلقوں سے تعلق رکھنے والے ارکان سوشل میڈیا پر کہہ رہے ہیں کہ ثاقب بلوچ سے قبل دیگر دو بلوچ جلاوطن سیاسی کارکنان کی موت بھی پانی میں ڈوب کر ہوئی ہے جو کسی امر کی نشاندہی کرتی ہے-
یاد رہے اس سے قبل کینیڈا میں مقیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن آزاد کے چیئرپرسن کریمہ بلوچ 20 دسمبر 2021 کو اپنے گھر سے نکلنے کے بعد پر اسرار طور لاپتہ ہوگئی تھی اور 22 دسمبر 2020 کو ٹورنٹو پولیس کو بلوچ رہنماء کی لاش ملی تھی، ٹورنٹو پولیس کا کہنا تھا کہ کریمہ کی لاش شہر کے ایک جزیرے کے قریب پانی سے برآمد کی گئی-
37 سالہ کریمہ بلوچ کینیڈا میں پناہ گزین کی حیثیت سے مقیم تھی جبکہ سنہ 2016 میں بی بی سی نے کریمہ بلوچ کو دنیا کی ’سو بااثر خواتین‘ کی فہرست میں بھی شامل کیا تھا۔
اسی طرح جلاوطن بلوچ صحافی ساجد حسین کی لاش سویڈن کے اپسلاء ندی سے برآمد ہوئی تھی ساجد حسین مارچ 2020 میں لاپتہ ہوگیا تھا ایک مہینے بعد پولیس نے ساجد حسین کی لاش اپسلاء ندی سے برآمد کی تھی-
پولیس نے مذکورہ دونوں واقعات کو حادثہ بتایا تھا تاہم بلوچ سیاسی حلقے ان اموات کو قتل قرار دیتے رہے ہیں اور تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں-
بلوچ سیاسی حلقے ان واقعات کا ذمہ دار پاکستان اور اسکے خفیہ اداروں کو ٹھہراتے ہیں ان کا الزام ہے کہ پاکستان اور اسکے خفیہ ادارے جلاء وطن بلوچ سیاسی کارکنان اور صحافیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں تاکہ بیرون ممالک بلوچ سیاسی کارکنان کو سرگرمیوں سے روکا جاسکے-
ثاقب کریم بلوچ کون تھے:
32 سالہ ثاقب ولد کریم بلوچ کا بنیادی تعلق بلوچستان کے علاقہ بسیمہ سے ہے وہ 2015 میں دبئی منتقل ہوئے اور سال 2018 میں سابق سویت ملک آذربائیجان چلے گئے جہاں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواست دینے بعد گذشتہ پانچ سالوں سے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں مقیم تھے-
رواں سال “یو این ایچ سی آر”نے انکی پناہ کی درخواست قبول کرتے ہوئے ثاقب بلوچ کو سیاسی پناہ فراہم کردیا تھا-
اس سے قبل ثاقب کریم کے دو بھائی طارق کریم اور عاصم کریم کی جبری گمشدگی کے بعد لاشیں برآمد ہوئی ہیں ثاقب بلوچ کے بھائی طارق کریم کو کراچی جبکہ عاصم کریم کو کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کردیا گیا تھا مذکورہ خاندان کے دیگر افراد اب بھی جبری طور پر لاپتہ ہیں-
ثاقب کریم کے دونوں بھائیوں کا تعلق بلوچ آزادی پسند طلباء تنظیم بی ایس او آزاد سے تھا۔ طارق کریم 21 اکتوبر 2010 کو کراچی گلستان جوہر سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنے تھے جبکہ سات ماہ بعد 11 مئی 2011 کو طارق کریم کی مسخ کی گئی لاش کوئٹہ سے برآمد ہوئی تھی-
انکے قریبی ذرائع نے بتایا کہ ثاقب اور طارق کے دوسرے بھائی عاصم کریم کو 29 اکتوبر 2010، کو اس وقت کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا جب وہ اپنے بھائی طارق کریم کی جبری گمشدگی کے حوالے سے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرنے کے بعد کوئٹہ میں موجود تھیں اور اگلے دو روز بعد 31 اکتوبر کو عاصم کریم کی لاش کوئٹہ خانوزئی سے انتظامیہ نے برآمد کیا تھا-
ثاقب بلوچ کے قریبی ذرائع کے مطابق ثاقب بلوچ کا سیاسی تعلق بلوچ اسٹوڈ آرگنائزیشن آزاد سے رہا ہے جبکہ جلاء وطنی سے قبل ثاقب بلوچ اسلام آباد میں مقیم تھے اور بی ایس او آزاد اسلام آباد زون کے آرگنائزر کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے تھے-
انکے ایک دوست نے بتایا کہ جب پاکستانی اداروں کی جانب سے بلوچ سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگیوں میں تیزی آئی اور ثاقب کریم کے قریبی دوست گزین قمبرانی کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا تو اس دوران ثاقب کریم بیرون ملک منتقل ہوگئے تھیں بیرون ملک منتقلی سے قبل ثاقب کریم سی ڈی اے اسلام آباد میں ملازم تھیں اور 2014 میں ماما قدیر بلوچ و لاپتہ افراد کے لواحقین کے طویل لانگ مارچ کے بعد کوئٹہ سے اسلام آباد پہنچے تھیں تو ثاقب اور گزین قمبرانی نے اسلام آباد میں ماما قدیر بلوچ کی ریلی کی قیادت کی تھی جس کے بعد اسلام آباد پولیس اور خفیہ اداروں کی جانب سے انکے خلاف کاروائی بھی عمل لائی گئی-
ثاقب کے ہمراہ اسلام آباد میں مقیم انکے قریبی دوست اور بی ایس او آزاد کے رکن گزین قمبرانی کو جولائی 2015 میں کوئٹہ کلی قمبرانی سے فورسز نے حراست میں لیکر لاپتہ کردیا تھا جبکہ اگست 2016 میں گزین کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی تھی-
ثاقب کے جانبحق ہونے کے واقعہ کے بعد انکے اپنے فون سے قریبی رشتہ داروں کو انکی ہلاکت کی اطلاع دی گئی تھی- بلوچ کارکن کی لاش کو گذشتہ روز آذربائیجان سے پاکستان لایا گیا جبکہ انکی تدفین بسیمہ میں کردی گئی ہے-
ثاقب بلوچ کے واقعہ پر برطانیہ میں مقیم بلوچ نیشنل مومنٹ کے رکن اور صحافی حکیم بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ تیسری دفعہ ہے کہ کسی بلوچ کارکن کی موت ایک ہی نوعیت سے ہوئی ہے انہوں نے کہا یہ کوئی اتفاق نہیں کہ بیرون ملک پناہ گزین بلوچ ڈوبنے کی باعث ہلاک ہورہے ہیں-
بلوچ نیشنل مومنٹ نے آذربائیجان کی حکومت سے درخواست کی ہے کہ ثاقب کریم کے موت کی تحقیق میں قتل کے خدشے پر بھی تفشیش کرے کیونکہ بلوچستان میں ان کے دو بھائیوں کو پاکستانی فوج نے جبری گمشدگی کے بعد زیرحراست قتل کیا تھا جس کے بعد ثاقب کریم نے جبری جلاوطنی اختیار کیا تھا-