بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے زیارت میں پہلے سے جبری طور پر گمشدہ افراد کو جعلی مقابلے میں نشانہبنانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے ریاست پاکستان بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کےحوالے سے من گھڑت کہانیاں بناکر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا آرہا ہے تو دوسری جانب اپنا غم و غصہ نکالنے کیلئے لاپتہافراد کو جعلی مقابلوں میں نشانہ بناکر بلوچ نسل کشی کا تسلسل بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں سیکورٹی فورسز نےزیارت میں ایک جعلی مقابلے میں پہلے سے لاپتہ افراد کو مار کر شہید کر دیا جو انتہائی تشویشناک امر ہے۔ واضح رہے کہ یہ پہلیدفعہ نہیں کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے لاپتہ افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ریاستی فورسزنے جعلی مقابلوں میں پہلے سے گمشدہ کیے گئے افراد کو نشانہ بنایاہے۔ گزشتہ سال ہی مستونگ اور مختلف علاقوں میں درجنوںافراد کو ایسے جعلی مقابلوں میں شہید کیا گیا تھا۔ زیارت میں شہید کیے گئے 9 افراد میں سے اب تک ایک لاپتہ شخص کی شناختشمس ساتکزئی کے نام سے ہوئی ہے جس کی شناخت خاندان نے کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں پانچ سال قبل لاپتہ کیا گیا تھا۔
ترجمان نے کہا یہ نوآبادیاتی جبر کی انتہاء ہے کہ معصوم اور بے گناہ افراد کو بنا کسی جرم کے محض بلوچ ہونے کی بنیاد پر اٹھایاجاتا ہے پھر سالوں تک انہیں مختلف قسم کی اذیتیں دی جاتی ہیں جبکہ اس دوران لاپتہ افراد کے لواحقین کو بھی ذہنی اذیت کانشانہ بنایا جاتا ہے۔ زیارت میں لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں نشانے بنانے کے واقع پر انسانی حقوق کے دعویداروں کی خاموشیاس بات کا غماز ہے کہ وہ بلوچ لاپتہ افراد کے معاملے پر کتنا سنجیدہ ہیں۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں انسانی حقوق کے اداروں اور دیگر ممالک سے بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے بلوچ نسلکشی پر آواز اٹھانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے سیاسی طاقتوں اور عالمی اداروں کو بلوچ قوم کی نسل کشی پر پاکستان کوانصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرنا چاہیے۔